سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری ہوئی، جس پر ساری اپوزیشن بالخصوص پیپلزپارٹی انتہائی سیخ پا ہے،اسے ایک انتقامی کارروائی ،بہت بڑی زیادتی،ناانصافی اور جمہوریت کے خلاف دہشت گردی قرار دے رہی ،پھر کراچی میں اسپیکر سندھ اسمبلی کے اہل خانہ کے ساتھ بدتمیزی اور زیادتی کی گئی کا بھی شور مچائے ہوئے،حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے،آج اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری پر اتنا شور واویلا مچانے والوں کے جب اپنے مفادات کو ٹھیس لگی توچیخنے چلانے لگے،زیادتی و ناانصافی اور کھلی دہشت گردی کی دہائیاں دینے لگے ،اسے انصاف کا خون اور جمہوریت کا قتل کہنے لگے،اسے انتقامی کارروائی اور اپوزیشن سے ناروا سلوک سے تعبیر کرنے لگے،اسے زیادتی و ناانصافی سے منسوب کرنے لگے،اسے سرعام غنڈہ گردی اور چادر اور چاردیواری کے تحفظ کو پامال کرنے جیسا عمل سمجھنے لگے،اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب غریب پر ظلم ہورہا ہوتا ہے،غریب آدمی کی عزت و آبرو کا جنازہ نکالا جارہا ہوتا ہے،اس پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جارہے ہوتے ہیں۔
بقول ممتاز صحافی،سنئیراینکر پرسن ،کالم نویس حسن نثار ”معمولی تھانہ جرائم پر پورا پورا خاندان اٹھا کر لے جاتا ہے،تھرڈ ڈگری ٹارچر معمول کی بات ہے،عورتوں کو برہنہ کرکے پھرایا جاتا ہے،نابالغ بچوں کے خلاف ایف آئی آر ز درج ہوتی ہیں،معصوموں پر منشیات اور اسلحہ ڈال دیا جاتا ہے،پولیس مقابلے عام ہوتے ہیں،ساہیوال سے لیکر منہاج القرآن تک لاشیںبچھی ہیں،لڑکیاں کاروکاری ہوجاتی ہیں،بدکاری کے الزام میںجیتے جاگتے انسانوں کو دہکتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے،سول سروس تک کے پرچے لیک ہوجاتے ہیں۔
امتحانی مرکزوں سے لے کرجعلی ڈگریوں تک کا کاروبار عام ہے،دودھ اور چائے کی پتی سے لے کربیسن اور ادرک تک دونمبر،جعلی دوائیں۔۔۔اور خود ان کی جائیدادیںبھی باہر ،اولادیں بھی باہرتو بندہ پوچھے کہ تم نے ، تمہاری جمہوریت نے،تمہارے آئین نے اس ملک کے عام آدمی کو ذلت اور غربت کے علاوہ اور دیا ہی کیا ہے؟تم تو عوام کو وہ عزت بھی نہ دے سکے جو مفت ملتی ہے تو اب اپنی بے عزتیوں پر اتنے سیخ پا کیوںہو؟”۔تم تو پھر بھی اچھے ہو،ملک کو لوٹ کر کھا جاتے ہو،کرپشن و لوٹ مار کرکے اس دیس کی دھجیاں بکھیر دیتے ہو،اپنی لوٹ مار کے سبب ملک کو کئی دہائیوں پیچھے لے جاتے ہو،خود ہی گہنگار ،قصور وار ہوتے ہوئے بھی خود کو معصوم گردانے ،اس کا پرچار کیے” حقیقت ”میںمعصوم بن جاتے ہو،جیسے آپ نے تو کچھ کیا ہی نہ ہو۔
دو نمبر دھندے اور کام کو عروج بخشتے ہو، اورپکڑے جانے پر زیادتی وناانصافی کا واویلا بھی مچاتے ہو،اپنے اوپر ظلم وزیادتی کی دہائیاں بھی دیتے ہو،اپنے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات ،خیالات اور کارناموں سے ملک کی جڑیں بھی کھوکھلی کرتے ہو،اور نعرہ پاکستان پائندہ آباد ،پاکستان کھپے کا بھی لگاتے ہو،ملک کی بھولی بسری عوام کو ترقی وخوشحالی کے سہانے سپنے دکھا کر ان کے حقوق و فرائض سے بھی غفلت برتتے ہو،ان کی محرومیوں اور جائز شکایات کا بھی ازالہ نہیں کرتے ہو،نوکریوں ،ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کا وعدہ کرکے پھر ان کی طرف پلٹ کے بھی نہیں دیکھتے ہو،ملک کے اعلیٰ ایوانوں میں پہنچ کر بھی ایک بھی ڈھنگ کا قانون پاس نہیںکرواپاتے،اپنے غلط ہونے پر بھی ٹھیک ہی کہلواتے ہو،کرپشن میں پکڑے جانے پر بھی اپنے پروڈکشن آرڈرجاری کروا کے واپس اپنی رنگین دنیا میں آجاتے ہو،غریب کوتو پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں ہوتے،تم کو تو ملک کی جڑیں کاٹنے کے بعد بھی رہائی کا پیمانہ مل جاتامگر غریب تو یہاں معمولی جرائم پر جیل کی کال کوٹھریوں میں بے گناہ سڑتارہتا،مدتوں شنوائی نہیں ہوتی،تم اس ملک کی رعایا کے حقوق غضب کرکے بھی کامیاب ہو ،اورغریب عوام حقوق چھن کربھی جرم دار،تم گہنگار ہوکر بھی نواب ٹھہرے اورغریب عوام بے قصور ہوکر بھی قابل عذاب ٹھہرے۔
بقول ممتاز صحافی ،اینکر پرسن،کالم نویس حسن نثار ”ظالمو! تم نے ستر اکہتر سالوں میں ”رعایا” کو شہری نہیں بننے دیا،تم نے لوگوں کو جاہل در جاہل رکھاتاکہ زندہ مشینوں سے ووٹ چھینتے، بٹورتے، اینٹھتے،ٹھگتے رہو۔تم نے ہمیں آدمی سے انسان تو کیا بنانا تھا، ۔۔۔ ہمیںایک منصوبہ کے تحتSUB MENاورMINIMALS میں تبدیل کردیاتاکہ تمہارے تخت وتاج سلامت رہیں۔تم نے اصل بے قصوروں کو برباد کرکے رکھ دیا،تم نے انہیں بری طرح برین واش کرکے روبوٹس میں تبدیل کردیا،تم نے اپنے لیے سرے محل اور ایون فیلڈ پسند کیے،انہیں فٹ پاتھوںپر پھینک دیا،تم نے اپنی نالائق اولادوں کے لیے آکسفورڈ،کیمبرج،برکلے،سٹینفرڈپسند کیے اور کروڑوں بچوں سے ٹاٹ سکول بھی چھین لیے”۔اب اس سائیں سائیں کہنے والی،بھیڑبکریوں کی طرح آپ کے پیچھے چلنے والی گائے جیسی عوام سے اپنی کس بات اور عمدہ کارنامے پر سوال کیے ”صدائے احتجاج ”بلند کیے ہوئے ہو۔
عوام کو کیوں تنگ کر رہے ہو،باہر بھی عوام کا سکھ چین برباد کیے ہوئے تھے،اب جیلوں میں ہوتے ہوئے بھی عوام کو جینے نہیں دیتے ہو،آخر تم چاہتے کیا ہو؟اللہ کی بے آواز لاٹھی کاپتا نہیں چلتا،کب ،کس پر اور کیسے برستی،اب اللہ کی پکڑ پر،جس طرح دیدہ دلیری سے بیدردی کے ساتھ”مال مفت دل بے رحم” کی طرح ملکی خزانہ لوٹا،اب احتساب کے عمل اور نیب کا سامنا بھی اتنے ہی ہمت و حوصلہ سے کرو،ملکی دولت لوٹتے تو بہت سلفیاں لیتے اور قہقے بکھیرتے تھے،اب اس لوٹے ہوئے خزانے کواپنے خود سے نکلتے، چیختے چلاتے بین کیوں ڈالتے ہو،یہ دنیامکافات عمل کی جگہ ،جو آج بیجو گے ،کل اسے ہی کاٹنا ہے،اب جو بیجا ہے ،وہ کاٹومگر روئو مت ۔بقول شاعر مشرق: