کچھ لوگ بڑے ہی دلچسپ ہوتے ہیں، دوسروں کے معاملات میں بلاوجہ اپنی پولیو زدہ ٹانگ اڑانا اُن کا محبوب ترین مشغلہ ہوتا ہے۔ ایک دم دبنگ انٹری !!! متعلقہ معاملے سے تعلق نہ بھی ہو پھر بھی اپنی دانشوری جھاڑتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارا اجتماعی نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کے ایک علاقے کے لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر وہاں کوئی کاغذ تھامے کچھ لکھ رہا ہو تو وہ پوچھتے ہیں کہ کیا لکھ رہے ہو؟ اور پھر خود ہی مخاطب ہوتے ہیں کہ اگر کسی کو خط لکھ رہے ہو تو میرا سلام لکھنا، اگر کسی کے خلاف درخواست دے رہے ہو تو میری گواہی ڈال دینا۔۔۔ تُو کون؟۔۔۔ میں خواہ مخواہ !!! ایسی ہی شکایات ہمارے بعض صحافی بھائیوں کو بھی ہے۔
وہ گلہ کرتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم اخبار کیلئے خبر لکھ رہے ہوں تو ایسے میں کوئی نہ کوئی مخواہ مخواہ بھی ٹپک پڑتا ہے۔آپ دُنیا میں کہیں بھی چلے جایئے، ان ممالک میں لوگوں کے رویئے اس طرح کے نہیں ہیں، وہاں لوگ واقعی اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتے، نہ ہی دوسروں کی فکر میں گھلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ ہم نے اپنے کام سے کام نہیں رکھنا بلکہ دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانا، دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنا، خود کی بجائے دوسروں کو سیدھے رستے پر چلانے کی کوشش کرنا اور اپنے علاوہ سب کو بدراہ، بددیانت اور بے ایمان سمجھنا ہے۔
ہماری ذاتی زندگی کی بیشتر مشکلات شروع ہی اس وقت ہوتی ہیں جب ہم دوسروں کے معاملات میں دخل در معقولات بلکہ نامعقولات شروع کر دیتے ہیں۔ کون کیا کر رہا ہے؟۔۔۔ کہاں آ رہا ہے؟۔۔۔ کہاں جا رہا ہے؟۔۔۔ اس کا ذریعہ آمدنی کیا ہے؟۔۔۔ کتنا کماتا ہے؟۔۔۔ اس کا گھر کتنا بڑا اور کیسا ہے؟۔۔۔وہ کیا کھاتا ہے؟۔۔۔۔ کیسے کپڑے پہنتا ہے؟۔۔۔۔اگر کوئی بے روزگار ہے تو اُس کے والدین سے زیادہ فکرمند یہ لوگ ہوتے ہیں کہ وہ نِکمّا کیوں ہے۔گویا ہر چھوٹی سے چھوٹی بات جو دوسروں سے متعلق اور خود سے غیر متعلق ہو، ہم اس کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ہماری پسند کے مطابق اپنی شخصیت کو بنائے، قطع نظر اس کے کہ ان کے احساسات و جذبات کیا ہیں اور انہیں کیا بات اچھی لگتی ہے اور کیا بُری لگتی ہے۔
ہم مسلسل اپنی بات منوانے پر تُلے رہتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی فطرت اکثر توقع کے برعکس نتائج دیتی ہے۔ ہمارے ہاں اپنے کام سے کام رکھنے کی سب سے بہترین مثال اگر کسی شعبے میں دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ سیاست ہے۔ آپ سیاستدانوں، ایم این ایز، ایم پی ایز کو ہی دیکھ لیں۔ صرف یہی لوگ ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد وہ پانچ سال تک آپ کے مسائل سے دور ہی رہتے ہیں بلکہ وہاں ٹانگ اڑانا بھی مناسب نہیں سمجھتے اور جب اگلے انتخابات قریب آتے ہیں تو دو تین ماہ کیلئے اُن کی ٹانگ اڑائی ووٹر کو بھی برداشت کر ہی لینی چاہئے۔
دُنیا میں چاہے کچھ بھی ہو جائے، ملک کی خارجہ پالیسی یا داخلہ پالیسی چاہے کوئی بھی ہو، ملکی معیشت کسی بھی ڈگر پر چلے، عوام کے حالات جیسے بھی ہوں یہ لوگ مستقل اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں یعنی اپنے ذاتی مفادات کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا۔ ہمیں کم از کم اُن سے ہی سبق حاصل کر لینا چاہئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دوسروں کے معاملات میں اڑائی جانے والی پولیو زدہ ٹانگ کو آخر کار کٹنا ہی ہوتا ہے تاہم اگر اس مرض پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو ٹانگ کے ساتھ ساتھ اُس شخص کی ناک کٹنے میں بھی دیر نہیں لگتی۔