اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کر ڈالے اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیگا، اس پر اللہ کا غضب ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی ہے، اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ]النساء : 93[ ،امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن اس وقت اپنے دین کی وسعت میں ہے جب تک وہ کسی کا حرام اور ناحق خون نہیں بہاتا۔” (صحیح بخاری : 6355 )، سورة الفرقان میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں بناتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے وہ بجز حق کے اسے قتل نہیں کرتے، اور نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائیگا۔اسے قیامت کے روز دوہرا عذاب دیا جائیگا، اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہیگا۔” (الفرقان : 68 ـ 69 )،اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ قتل کی مستحق تھی ( اگر شادی شدہ عورت زنا کرے تو ) تو پھر بھی اس حد کو صرف حکمران ہی جاری کر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں بہت سارے حالات میں یہ قتل صرف شبہ اور گمان کی بنا پر ہی کیا جاتا ہے، اور کسی بھی قسم کی تحقیق نہیں کی جاتی کہ آیا زنا ہوا بھی ہے یا نہیں۔ ہماری پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے انسداد کے لیے بل اور انسداد عصمت ریزی بل کی متفقہ طور پر منظوری کی ہے، اتفاق رائے سے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے قانون کی منظوری دی ہے اور اس کے تحت ایسی مقتولہ عورت کے ورثاء کی جانب سے اس کے قاتل کو معاف کرنے کا اختیار ختم کردیا گیا ہے۔پارلیمان میں منظور کردہ نئے قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کرنے والے ملزم کو اب کڑی سزا دی جاسکے گی اور اس کو جرم ثابت ہونے پر اگر پھانسی کی سزا دی جاتی ہے تو اس صورت میں خاندان کے افراد اس کو معاف کرسکیں گے۔
یہ معافی ملنے پر بھی اس کو عمر قید (ساڑھے بارہ سال) کی سزا بھگتنا ہوگی۔ساتھ ہی پارلیمان میں ”انسداد عصمت ریزی بل” کی بھی اتفاق رائے سے منظوری دی ہے۔جس سے ملک بھر میں عصمت ریزی ( ریپ) کے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ جرم کے مرتکب کا طبی ملاحظہ بھی کیا جائے گا۔عدالتیں عصمت ریزی کے کیسوں کا تین ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی اور چھے ماہ میں ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی جاسکے گی۔ پولیس اسٹیشن متاثرین کو ان کے قانونی حقوق کے بارے میں آگاہ کرنے کے پابند ہوں گے۔اس قانون کے تحت مجرم کو پچیس سال تک قید کی سزا سنائی جاسکے گی۔
اس سے کم سن بچوں سے زیادتی اور ذہنی یا جسمانی معذورین کی عصمت ریزی کے مجرم بھی سخت سزا پائیں گے۔ایسے ملزموں اور متاثرین کے ڈی این اے کے نمونے جلد سے جلد حاصل کیے جائیں گے اور انھیں مزید تحقیق وتفتیش کے لیے کسی فورینزک لیبارٹری میں بھیجا جائے گا۔واضح رہے کہ بعض غیر سرکاری اداروں کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریباً پانچ سو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔کسی نوجوان لڑکی یا شادی شدہ عورت کو اپنے آشنا کے ساتھ گھر سے فرار ،خاندان کی مرضی کے بغیر شادی یا کسی سے ناجائز مراسم کی بنا پر موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔
جب ان عورتوں کے قاتل بھائیوں ،بیٹوں ،والدین یا دوسرے قریبی رشتے داروں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلتے ہیں تو بالعموم ان کے قریبی عزیز اور مقدمے کے مدعی انھیں معاف کردیتے ہیں اور یوں وہ سزا سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں ان میں ایک ناسورجوبہت تیزی سے پھیل رہا ہے وہ غیرت کے نام پر قتل ہے،غیرت کے نام پر قتل ہمارے ثقافت تونہیں لیکن یہ ناسور سماج کا حصہ اور وہ تلخ حقیقت جسے قبول کیا جاتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل پہلے مقامی پھرصوبائی اور ملکی اب بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے،یہ واقعات برطانوی دورمیں بھی موجود تھے ان دنوں میں پہلی بارقانون بنائے گئے تھے،اس دورمیں حقیقی واقعات بھی ہوتے تھے،لیکن موجودہ وقت نوے فیصدواقعات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں،جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ایسے واقعات میں نوے فیصدلڑکیاں جہالت اورسرداری نظام کی وجہ سے قتل ہورہی ہیں،جہاں اسلام نے عورتوں کوعزت اورمقام دیا ہے اور عورت کو بہن ،بیٹی ،ماں کے روپ میں جنت کا مقام دیا ہے،وہی ہمارے ملک جواسلام کے نام پربنا غیرت کے نام پر قتل اسلام کے روشن چہرے پر ایک بدنما داغ بن چکا ہے،جنون کی کیفیت میں بعض مردحضرات اپنی قریبی رشتہ دارخواتین جیسے بہن ،بیٹی،بیوی کوپسندکی شادی کرنے یا کسی کے ساتھ فحاشی کرنے اور غلط تعلقات قائم کرنے کے شبہ میں قتل کردیتے ہیں،اس سلسلے میں درج زیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔1۔اسلام نے کسی شخص کو انفرادی طورپر یہ حق نہیں دیا کہ وہ ان سزائوں کا نفاذکرے،جواسلام نے مقررکی ہیں اس معاملے میں کوئی شخص قانون کوہاتھ میں نہیں لے سکتا اگریہ سزائیں دینے کا کوئی حق رکھتا ہے تووہ حکومت وقت ہے،کسی مسلمان شخص کو ناحق قتل کرنا بہت عظیم اور بڑا جرم ہے۔