سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی تھی اسے خطے میں وطن عزیز کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے خائف فرقہ پرست مودی اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا اور پلوامہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے ہی فوجیوں کو جہنم واصل کر کے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ حملہ پاکستان نے کروایا ہے اور بھارتی وزیر اعظم اپنی گیڈر بھبکھیوں سے جری و نڈر پاکستانیوں کو ڈرانے لگا اور ہمیں جنگ کی دھمکی دیکر یہ سمجھ رہاہے کہ پاک فوج خوفزدہ ہو جائے گی اور اس سے سلامتی کی بھیک مانگے گی ۔ یقینا بھارت 1965ء کی شکست کو بھول بیٹھاہے۔ پاکستان سے جنگ لڑنے کا خواب دیکھنے والے یہی بھارتی سورما ہیں جنہوں نے 65ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنی جھوٹی طاقت کے نشے میں لاہور کے مشہور بازار انار کلی میں چائے پینے کا اعلان کیا تھا ۔ہمارے سر فروشوں نے ہندوستانی فوج کو ایسا سبق سکھا یا کہ وہ لاہور بارڈر سے گزرتی بی آر بی نہر بھی کراس کرنے کی جرات نہ کر سکے اور یہ بھارتی فوج ہمیں سبق سکھائے گی ۔کشمیر کے ضلع پلوامہ میں حملے کے تناظر میںہمارے وزیراعظم کے جارحانہ بیان سے تو بھارت تلملا اٹھا وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ولی عہد کی آمد پر ہماری جانب سے ایسی احمقانہ حرکت کیونکر کی جاتی؟ اس سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہونا تھا؟، پاکستان نے خود ایک طویل عرصہ جنگ لڑی ہے اور کامیابی حاصل کی ہے اور وزیر اعظم نے اس خطرے کا اظہار بھی کیا کہ بھارت میں الیکشن کے موقع پر پاکستان مخالف بیانیہ کافی ہٹ ہوتا ہے۔
جبکہ بھارتی پردھان منتری کے پاکستان پر حملہ کرنے کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں بلکہ فوری جواب دے گا، ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوگا۔مودی حکومت الیکشن سٹنٹ کے طور پر اپنے شہریوں کے جذبات سے کھیلنے کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے اور پلوامہ واقعہ بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے جنگی مشق کی نوٹنکی کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ پلوامہ واقعہ کے دو روز بعد بھارتی فضائیہ نے 140 لڑاکا طیارے، حملہ آور ہیلی کاپٹر اور بڑے پیمانے پر میزائل پاکستانی سرحد کے قریب اپنی مشق میں استعمال کئے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے فوج کو اجازت دیدی ہے کہ وہ اس حملے کا مناسب جواب دے۔ پاکستان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور اس کی مذمت بھی کی تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے عمران خان کی حملے کی تحقیقات کی پیشکش پر ردعمل میں اسلام آباد کی کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ‘عمران خان کا یہ کہنا کہ پاکستان خود دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہے، حقیقت کے برعکس ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ‘ہمیں اس بات پر حیرانی نہیں ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے پلوامہ میں ہماری سیکیورٹی فورسز پر حملے کو دہشت گردی کا واقعہ تسلیم نہیں کیا، انہوں نے اس ظالمانہ واقعے کی مذمت کی اور نہ ہی متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔’بھارتی وزارت خارجہ نے معاملے پر پاکستان کے موقف کو نظر انداز کیا جس میں دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان، کشمیر میں کشیدگی کی مذمت کرتا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں وزیر اعظم عمران خان پر جیش محمد اور حملے میں ملوث بمبار کے دعوؤں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘دہشت گردانہ حملے اور پاکستان کے درمیان کسی تعلق سے لاعلمی کا اظہار کرنا اسلام آباد کا پرانا بہانہ ہے۔’تاہم بیان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان ‘دعوؤں’ سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ جیش محمد نے، جس پر پاکستان میں پابندی ہے اور اس کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے، واقعے کی ذمہ داری قبول کی لیکن یہ واضح نہیں کہ بھارتی وزارت خارجہ، جیش محمد کے حملے میں ملوث ہونے کے دعوے کے بیان کو پاکستان سے کس بنیاد پر جوڑ رہی ہے۔ اگر چہ پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کی جانب سے کئی بار یہ کہا گیا کہ وہ جیش محمد کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، کیونکہ وہ اسے دہشت گرد گروپ مانتا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بمبار، مقبوضہ کشمیر کا رہائشی تھا جبکہ اس کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ شدت پسندی کی طرف، بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے حقوق کی پامالیوں اور تشدد کی وجہ سے مائل ہوا۔بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ بمبار کا پاکستان سے کس طرح تعلق تھا۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تعاون کے لیے ‘ٹھوس ثبوت’ فراہم کرنے کی درخواست پر عمل کے بجائے بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں بار بار یہ الزام لگایا کہ ‘جیش محمد اور اس کے سربراہ مسعود اظہر پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے یہ ثبوت کافی ہیں۔
بھارت وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ ‘پاکستان کے وزیر اعظم نے ثبوت فراہم کیے جانے پر معاملے کی تحقیقات کی پیشکش کی جو صرف ایک بہانہ ہے، ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ کے حملے کے بھی ثبوت پاکستان کو دیئے جاچکے ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔بیان میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ بھارتی حکام نے خود پٹھان کوٹ واقعے کی تحقیقات کو روکا تھا۔ممبئی حملوں سے متعلق وزیر اعظم عمران خان نے دسمبر 2018 میں امریکی اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ان کی حکومت اس معاملے کو دیکھے گی۔بھارتی وزارت خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان کی مذاکرات کی تجویز کو بھی یہ غیر واضح شرائط رکھ کر مسترد کیا کہ ‘پاکستانی وزیر اعظم نے مذاکرات کا مطالبہ کیا اور دہشت گردی کے حوالے سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔بھارتی وزارت خارجہ نے عمران خان کی طرف سے حملے کو بھارت کے پارلیمانی انتخابات کے پیرائے میں دیکھنے پر کہا کہ بھارت اس جھوٹے الزام کو مسترد کرتا ہے، بھارت کی جمہوریت دنیا کے لیے مثال ہے جو پاکستان کبھی نہیں سمجھے گا۔
ادھر امریکہ بھارت کی زبان بول رہا ہے اور اس نے ایک بار پھر ”ڈو مور” کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پلوامہ حملے میں ملوث عناصر کیخلاف فوری کریک ڈاون کرے،پلوامہ حملہ انتہائی بھیانک تھا،کیا اچھا ہو بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو جائیں۔امریکی صدر نے کہا کہ پلوامہ حملے سے متعلق کئی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں جس پر مناسب وقت میں بات کی جائے گی۔ امریکی ریاستی امور کے ترجمان رابرٹ پلاڈینو نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پلوامہ حملے پر نہ صرف بھارت سے اظہارِافسوس کیا ہے بلکہ مسلسل رابطے میں بھی ہیں۔روبرٹ پلاڈینو کا کہناہے کہ پاکستان کوپلوامہ حملے کی تحقیقات میں بھرپور تعاون کرنا چاہیے اور جو بھی ذمہ دار ہے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔اگر اس حملے کو بھارتی آئندہ الیکش کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پورا ڈرامہ بے نقاب ہو جاتا ہے کس طرح ہندو عوام کی ہمدردی کے ووٹ بٹورنے کے لئے غریب دلت سپاہیوں کو تختہء مشق بنایا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق وہ فوجی کانوائے جس پر حملہ ہوا ،مرنے والوں میں اکثریت کا تعلق دلت برادری سے تھا۔
صرف یہی نہیں اس حملے کی آڑ میں جموں کے مسلمانوں پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا گیا،کشمیر میں مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کیا گیا،ان پر حملے ہوئے اور بھارتی ریاست راجستھان میں پاکستانیوں کو نقصان پہنچایا گیا اور انہیں یہاں سے نکل جانے کو کہا گیا۔ایک اور خبر کے مطابق جے پور کی جیل میں قید پاکستانی قیدیوں کو بھی نشانہ بنایا گیااور ایک پاکستانی قیدی کو اینٹوں سے مارنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔بھارتی رچائے گئے ناٹک پر خود ہی بھارت سے ا بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور اپنی ہی مودی سرکار کو ننگا کر دیا ہے جیسا کہ سابق بھارتی جنرل نے اس حملے پر سوال اٹھائے ہیں۔سابق بھارتی فوجی کمانڈر لیفٹننٹ جنرل (ر) دیپندرا سنگھ ہوڈا نے اعتراف کیا کہ پلوامہ حملے میں بھارت کا ہی بارود استعمال کیا گیا۔ ا نہوں نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ ممکن نہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں بارود دراندازی کرکے اتنی دور لایا جاسکے کیوں کہ حملے میں ساڑھے سات سو پائو نڈ بارود استعمال کیا گیا تھا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈی ایس ہوڈا نے مزید کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس حملے کے بعد گہری سوچ بچار کے ساتھ تمام حقائق کا جائزہ لیا جائے گا اور اس پر غور کیا جائے کہ کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے۔
معروف بھارتی سماجی و مذہبی رہنما سوامی اگنی ویش نے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت حالات خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے تاکہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ہتھیائے جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ مودی نے سرجیکل اسٹرائیک اور فوجیوں کو اپنے سیاسی مقصد کیلئے استعمال کیا ہے اور مخصوص جماعت ووٹ لینے کیلئے لوگوں کے جذبات کا استحصال کررہی ہے۔ سوامی اگنی ویش کے مطابق کشمیری تاجروں اور طلباء پر حملے کرنے والے بھارت کے خیرخواہ نہیں ہیں بلکہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔