کشمیر (جیوڈیسک) پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اور بالخصوص کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں اب تشویش کی فضا پائی جاتی ہے اور سرحدی علاقوں سے عام لوگوں نے محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے جوہری ہتھیاروں کے حامل دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے۔ کئی بھارتی سیاست دان اس حملے کے بعد پاکستان سے ’انتقام لیے جانے‘ کے مطالبے بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی دہلی نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں نئے سکیورٹی دستے بھی بھیجے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے عوام بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے ضلع حویلی سے تعلق رکھنے والے سید افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے پاس پیسے ہیں، وہ محفوظ علاقوں کی طرف جا رہے ہیں، ’’لیکن زیادہ تر لوگوں کے مال مویشی ہیں۔ ان کی فصلیں ہیں، وہ یہ سب چھوڑ کر کیسے کہیں اور چلے جائیں۔ میرا اپنا گاؤں ہنڈی پیراں تین اطراف سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے لگتا ہے۔ نزا پیر سیکٹر صرف ایک یا دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ پہلے ہی لوگ روز روز کی شیلنگ سے خوفزدہ تھے۔ اب جنگ کے خدشات نے انہیں مزید خوف زدہ کر دیا ہے۔‘‘
ضلع پونچھ کے علاقے حاجیرہ سے تعلق رکھنے والے محمد نزاکت کا کہنا ہے کہ فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت تیز ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو لگ رہا ہے کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقفے وقفے سے فائرنگ اور گولہ باری تو اب بھی ہو رہی ہے۔ لیکن فوج کی نقل و حرکت سے ممکنہ جنگ کے آثار بڑھ رہے ہیں اور مقامی لوگ پیچھے کی طرف ہٹنے لگے ہیں۔‘‘
کشمیر کے پاکستان کے زیر انتظام حصے اور قانونی طور پر ’آزاد جموں کشمیر‘ کہلانے والی ’ریاست‘ کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف جنگی تیاریوں کے آثار بہت زیادہ نظر آ رہے ہیں، جس سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی جنگ کے سائے منڈلانا شروع ہوگئے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’’بھارت نے (اپنے زیر انتظام) کشمیر کے سرحدی علاقوں میں لوگوں کو راشن جمع کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ کچھ علاقے خالی بھی کرائے گئے ہیں۔ کشمیر میں اضافی بھارتی فوج بھی تعینات کر دی گئی ہے۔ اُدھر بھارتی آرمی چیف نے سخت بیان دیا ہے تو ادھر پاکستانی وزیر اعظم نے بھی ملکی مسلح افواج کو بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے کہہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ’آزاد (پاکستان کے زیر انتظام)کشمیر‘ کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے محکمے نے بھی ممکنہ ہنگامی صورت حال سے نمٹے سے متعلق ہدایات جاری کر دی ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی فوجی دستے چوکنا ہیں۔ تو اس صورت حال میں سرحدی علاقوں میں رہنے والے کشمیری سخت تشویش میں مبتلا ہیں اور خوف کا شکار ہیں کیونکہ جنگ کا کوئی ’ٹائم ٹیبل‘ نہیں ہوتا۔ اسی لیے لوگوں حفظ ماتقدم کے طور پر خود اقدامات کر رہے ہیں۔‘‘
پلوامہ حملے کے بعد جہاں بھارت کی طرف سے سخت بیانات آئے تھے، وہیں پاکستانی سیاست دانوں کی طرف سے بھی اسی طرح کے بیانات داغ دیے گئے تھے۔
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر پچیس فروری کو مختلف ممالک کے وزراء اور دیگر اعلیٰ ذمہ دار اہلکاروں سے ٹیلی فون پر رابطے بھی کیے، جن میں انہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے ان ممالک کے نمائندوں کو پاکستانی موقف سے آگاہ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے اندر سے ’بدلے، بدلے‘ کی آوازیں آ رہی ہیں، لیکن اگر کوئی بھی ’مِس ایڈونچر‘ ہوا، تو پاکستان اس کا ’پوری طاقت سے جواب‘ دے گا۔
کئی ناقدین کے خیال میں اس طرح کے بیانات نے بھی کشمیریوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سربراہ توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے لوگوں میں کبھی اتنا خوف نہیں دیکھا۔
انہوں نے بتایا، ’’لوگوں کو لگ رہا ہے کہ جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ دونوں طرف ظلم بھی کشمیریوں پر ہی ہو رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ کے شکل میں بھی ہماری ہی بستیاں، ہماری املاک، ہمارے شہر اور ہمارے دیہات ہی تباہ ہوں گے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کشمیر کو اپنی سیاست کی نذر کر دے۔ پاکستانی اور بھارتی سیاست دان اشتعال انگیز بیانات دینا بند کریں۔ ان بیانات نے ہمارے علاقوں میں خوف اور بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔‘‘