مہر اللہ وسایا سمرا، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

Mahr Allah Wasaya

Mahr Allah Wasaya

تحریر : لقمان اسد

موت بیماری نہیں فیصلہ کن قانون ہے ہر جان کے لیئے ،جیسے کسی جان کا عالمِ وجود میں آنا اس کے بس کی بات نہیں ایسے ہی پردہ عدم میں چلے جانا بھی مخلوق کے قبضہ و اختیار میں نہیں صرف وہی فنا و بقاء کا مالک ہے جو ہر جان و بے جان کا خالق ہے فعال لم یرید وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جسے چاہتا ہے کن ہو جا،فیکون ہو جاتا ہے۔

وہ وہی مصورِ حقیقی ہے جو ارحام میں تصویریں بناتا ہے وہ محض تصاویر ہی نہیں رہتیں بلکہ انہیں متحرک فرماتا ہے،نعمت ِ حیات سے نوازتا ہے عملاً وہ وہی خالق و قادر ہے جس نے موت و حیات کو احسن اعمال کو علتِ غایتة قرار دیا،حیاتِ دینوی ابتلا و آزمائش سے عبارت ہے اسے عمدہ اور خوب بنانے کے لیئے موت تخلیق فرمائی منعم حقیقی کی ہزار ہا نعمتوں کی طرح موت بھی ایک نعمت ہے جو محبوب کے وصل کا ذریعہ ہے مگر یہ ایسی نعمت ہے جسے کوئی جان بخوشی قبول نہیں کرتی اس لیئے اس کی آمد کی کسی کو کانو کاں خبر نہیں ہوتی بس آتی ہے تو ہر ایک کو بے بس کرتی ہوئی اپنا مطلوب لے جاتی ہے اور طالب روتے رہ جاتے ہیں وہ جو خاک کے رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور جانے والا خاک سے اپنا رشتہ ایسے جوڑ لیتا ہے کہ پھر اس جہاں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ،موت ایک ایسا پیلہ ہے جسے ہر متنفس نے پینا ہے اور قبر ایک ایسا دروازہ ہے جس سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔

ہر روز ہزار ہا انسان اس دورِ محسن میں داخل ہو رہے ہیں اور ہزار ہا عالمِ برزخ کی جانب رواں دواں رہتے ہیں مگر بہت ہی قلیل ہوتے ہیں جو ولایت کے منصب عظیم پر فائز ہوتے ہیں جن کا وصال ان کی زندگی کی شہادت بن جاتا ہے حیاتِ مستعار میں ان کے ا عمالِ احسن کی کسی کو پچھلی خبر نہیں ہوتی جتنی اس کی موت اس کے اعمالِ صالحہ کی شہرت کا باعث بنتی ہے یہ دنیا اگرچہ حوادث کا گھر ہے اور اس میں ہر ذی روح ان سے دوچار ہوتی ہے اور ہر شخص اکثر اوقات حوادث کو خاطر میں لائے بغیر کام میں جتا رہتا ہے مگر علاقہ تھل میں مہر اللہ وسایا سمراکے سانحہ ارتحال کا حادثہ ایسا ہے کہ کوئی دل اپنے آپ کو تڑپنے اور آنکھوں کو اشکبار ہونے سے نہیں بچا سکاوہ بے حد مشفق اور انسانوں سے پیار کرنے والے خوبصورت انسان تھے یہی وجہ تھی کہ ان کا جنازہ لیہ کی تاریخ کا تاریخ ساز اور یقینا ایک بڑا جنازہ تھا دور دراز علاقوں سے لوگ گویا جوق در جوق ان کے آخری دیدار کو دوڑے چلے آئے انسانوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود تھا۔

حضور ۖ ایک بار قبرستان میں تشریف فرما تھے میت لحد میں اترنے کو تیار تھی مگر قبر ابھی تیار نا تھی صحابہ کرام اللہ کے رسول ۖ کے ارد گرد بیٹھے تھے رسالتِ مآب ۖ کے ہاتھ میں لکڑی کا تنکہ تھا اس سے زمین پر نشانات بنا رہے تھے سر جھکائے ہوئے تھے آپ ۖ نے سر آسمان کی طرف اٹھایا پھر جھکا لیا،نیک اور بد کی روح کس طرح نکلتی ہے اس بارے میں تفصیل سے بیان فرمایا،اس تفصیلی بیا ن میں نیک کی موت کا منظر کچھ اس طرح تھا کہ ! “ملک الموت یعنی موت کا فرشتہ سر کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور جب روح نکالنے لگتا ہے تو نیک آدمی کی روح اس طرح نکلتی ہے جس طرح پانی کی مشک سے پانی کی بوند انتہائی ملائمت سے ٹپک کر گر پڑتی ہے روح جب اس انداز سے ٹپک کر ملک الموت کے ہاتھ میں آجاتی ہے تو اسے جنت کے ریشمی لباس میںرکھ لیا جاتا ہے خوشبوئیں کستوری کی آتی ہیں زمین سے لے کر آسمان تک فرشتوں کی لائن لگی ہوتی ہے جن کے چہرے مانند آفتاب چمک رہے ہوتے ہیں ان میں سے ہر فرشتہ اس روح کو اپنے ہاتھ میں لے کر آسمان کی جانب چڑھنے کو بے تاب ہوتا ہے۔

عصرِ حاضرمیں مہر اللہ وسایا کی موت کا منظربھی ایسا ہی تھا حقیقی اور لازوال دولت کے مالک اس شخص نے اپنی زندگی کو نیکی ،خیر،سعادت کے زیور سے آراستہ کر کے انسانیت کی بھلائی کے لیئے وقف کر دیا درد مند انسانوں نے اسے حقیقی معنوں میں غنی اور دریا دل پایا اور جو ان کی صحبت میں بیٹھا اس نے محسوس کیا کہ اس نے کچھ کھویا نہیں بلکہ عمل کے موتیوں اور سعادت سے اپنی جھولی بھر لی۔

ایک دانشور کا قول ہے کہ ہر شخص کو ایک مرتبہ مکمل زندگی کے تصور کا خواب آتا ہے ہمیں اپنی کسی نا کسی حالت میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں کیا بننا ہے خداوند کریم نے ہر انسان کی روح میں کوئی نا کوئی مقصد چھپا رکھا ہے ہر شخص کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کے دل میں کوئی عظیم بھلائی یا کارِ خیر کرنے کی تمنا کروٹیں لینے لگتی ہے اس کے ذہن میں بہترین کام کرنے کی آرزو بیدار ہوتی ہے اور اسی وقت انسان کے سامنے مقصدِ حیات ہوتا ہے۔

اگر کوئی شخص روز مرہ کی زندگی کے جھمیلوں میں اس وقت کی اضطراری حالت کو عمل کی صورت دے دے اور اپنے مقصدِ حیات کے لیئے سر دھٹرکی بازی لگا دے تو اس کا بصب العین پوری قوم کا نصب العین بن جاتا ہے اور پھر ایسی طاقت کا روپ دھار لیتا ہے جو ایک مرتبہ تو دنیا کو ہلا کر انگشت بدنداں اور ششدرو حیران کر دیتی ہے مہر اللہ وسایاسمراکی تمام زندگی اور حالات و واقعات کو اگر حقیقت کے آئینہ میں پوری سچائی اور دیانت داری سے دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی زندگی کو نصب العین کی سچائیوں اور منزلِ حیات کی سرفرازیوں سے مزین کر رکھا تھا وہ ایک روشن اور تابدار شخصیت کے مالک تھے جو اپنی زندگی کو سعادتوں ،سچائیوں ،خیروبرکت کی لازوال رفعتوں اور عظمتوں سے ہم دوش فرماتے رہے خدا تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دین و دنیا کی زندگی میں اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل فرمائے اور ان کا طریقِ بندگی و زندگی ،جرات وبے باکی ،خلوص و ایثار ،جذبہ عمل کو ان کے پسماندگان،خصوصاً ان کے بڑے بھائی مہر محمد یار سمرا،مہر محمد حسین سمرا ،مہر احمد یار سمرا ،مہر غلام حسین سمرا ،مہر رشید ناصر ،مہر محمد نواز سمرا ،مہر سیف سمرااورچاہنے والوں کے لیئے باعثِ تقلید ایک روشن نشانِ چراغ بنا دے۔
زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا
ہم فقط زیب حکایت تھے فسانہ تو تھا

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر : لقمان اسد