ممبئی (جیوڈیسک) پلوامہ خودکش حملے کے بعد سے بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ اس کا الزام پاکستان پر عائد کر رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق بھارتی میڈیا، جس انداز میں حالات کی منظر کشی کر رہا ہے، وہ بھارت کو ’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ کی طرف لے کر گیا۔
پاکستانی تجزیہ کاروں کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد بھارت کا رد عمل نیا نہیں تھا لیکن پڑوسی ملک کے میڈیا نے، جو ’جارحانہ انداز‘ اپنایا ہے، وہ قطعی طور پر مناسب نہیں ہے۔ دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کی بات سوچنا بھی انتہائی خوفناک ہے۔
پاکستان کے سابق نگراں وزیر دفاع لیفٹنینٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت کی جانب سے بہت احمقانہ حرکت کی گئی ہے اور پاکستان کی جانب سے اس کا موثر جواب بھی مل گیا ہے۔ سپاہی ہو یا جنگی طیارہ، جب تیز بھاگنا ہو تو ہتھیار پھینکنے پڑتے ہیں۔ انڈیا اپنے آپ کو خود اتنا الگ تھلگ کر چکا ہے کہ اسے کچھ نا کچھ تو کرنا ہی تھا لیکن ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اکہتر کی جنگ کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بھارتی ایئر فورس کے طیارے پاکستان کے تین سے چار میل اندر آئے ہیں۔‘‘
خالد نعیم لودھی کے مطابق، ’’پاکستان کو اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ یہ معاملات عالمی توجہ کے طالب ہیں ورنہ نتائج اچھے نہیں ہوں گے کیونکہ بھارت ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس واقعے کو، جس انداز میں اپنی فیس سیونگ کے لیے پیش کر رہا ہے، اس سے جواب دینا لازم ہو جاتا ہے۔‘‘
بھارتی طیاروں کے پاکستان میں داخلے کے معاملے پر آج پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا، جس میں بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور سینیئر عسکری حکام بھی شریک ہوئے۔
اس اجلاس میں بھارت کو جواب دینے کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اس دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی طیاروں کی دراندازی کے بعد کی صورتحال پر بریفنگ دی، جبکہ عسکری قیادت نے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاریوں سے آگاہ کیا۔ اجلاس کو پاک فضائیہ کے طیاروں کے فوری ردعمل کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے جارحیت کی اور جوابی کارروائی کے لیے وقت اور جگہ کا انتخاب پاکستان خود کرے گا۔
اجلاس میں قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس بھی بلانے اور بھارت کی جانب سے فضائی دراندازی کا معاملہ فوری طور پر عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے فوری طور پر او آئی سی، دوست ممالک اور اقوام متحدہ سے رجوع کرے گا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے لیے مشترکہ اجلاس بھی بلایا جائے گا۔
دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ مودی اس وقت ’’نو وِن‘‘ صورت حال سے دو چار ہیں۔ ان کا کہنا تھا،’’مودی کی بیان بازی اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ سو انہوں نے وہی کیا لیکن صورت حال ابھی پاکستان کے قابو میں ہے۔ لیکن پاکستان کو جہاں تک ہو سکے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جانی اور مالی نقصان سے قبل ردعمل کا اظہار نہ کرے۔ خدا نہ خواستہ اگر ردعمل کی ضرورت پیش آ ہی جائے تو ہلکا اور ایک جگہ ہونا چاہیے۔‘‘
سینیئر صحافی مظہر عباس نے ڈوئچے ویلے سے کہا، ’’پاکستان کے حوالے سے عالمی تاثر تھا کہ غیر ذمہ دار ریاست ہے، نیوکلیئر ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں لیکن پاکستان نے اس صورت حال میں انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دے کر اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند کبھی الیکشن نہیں جیت سکے، اقتدار میں نہیں آئے لیکن بھارت کے وزیراعظم نہ صرف ایک قوم پرست ہندو انتہا پسند تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام ہے اور بھارت سیکولر ریاست ہونے کا دعوٰی تو کرتا ہے لیکن وہاں حکومت انتہا پسندوں کی ہے۔‘‘
مظہر عباس مزید کہتے ہیں،’’بھارت میں مذہبی ہندو جنونیوں کا ہاتھ نیوکلیئر ٹرگر پر ہے جبکہ پاکستان میں نہ جنگ کا کوئی ماحول ہے نہ ہی یہاں کا میڈیا غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہا ہے۔ لوگ پاکستان سپر لیگ سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ سات مارچ سے سُپر لیگ کے میچ پاکستان میں ہوں گے، جس کے لیے ساری قوم خصوصاً نوجوان پرجوش ہیں مگر آج صبح کے بھارتی اقدام سے تشویش پیدا ہوئی ہے۔‘‘