اس کرہِ ارض پر ہٹلر اور مسولینی دو ایسے کردار تھے جو ملکِ ہوس گیری میں ساری حدیں پھلانگ گئے تھے۔ان کیلئے انسانیت کا وقار اور امن کی خواہش بے معنی شہ تھی۔وہ پوری دنیا پر حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظر میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔وہ انسانوں کو گاجر مولی سمجھے تھے ۔انھیں انسانوں سے نہیں بلکہ اپنی ملکِ ہوس گیری سے محبت تھی۔ دوسری جنگِ عظیم ان کی اسی حواہش کی تکمیل کا اظہار تھی جس میں کروڑوں لوگ لقمہِ اجل بنے ۔ انسانیت نے جس طرح کا قتلِ عام دیکھا اس سے پہلے ایسا منظر انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ اقوامِ عالم نے ایسی ہولناک تباہی دیکھی کہ انسانیت کانپ اٹھی۔جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگی ساکی پر ایٹمی حملے نے لاکھوں انسانوں کو پلک جھپکنے میں موت کی نیند سلا دیا ۔اس سے قبل چنگیزخان اور ہلا کو خان بھی دھشت کا استعارہ تھے ۔وہ سروں کیسروں کے مینار بناتے تھے اوربستیوں کو جلا کر خاک کر دیتے تھے لیکن ان کی تباہی دوسری جنگِ عظیم کے سامنے ہیچ ہے۔تباہی کے ایسے ہی نا قابلِ برداشت مناظر کی وجہ سے ازلی دشمنوں نے بھی ایک دوسرے کو گلے لگانے میں ہی اپنی عافیتفیت سمجھی جس کی واضح اور بین مثال فرانس اور جرمنی میں معمول کے تعلقات ہیں۔
افغانستان میں روس اور امریکہ بھی اپنی ملکِ ہوس گیری کا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔امریکہ اس سے پہلے ویتنام میں بھی ذلیل و خوار ہوا تھا اور اب افغانستان اس کا نیا قبرستان بننے والا ہے لیکن وہ اب بھی دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ ذہن میں طاقت کا خناس سماجائے تو ایسے ہی ہوتا ہے ۔نائن الیون کی آڑ میں دنیا کی تباہی کا نیا منصوبہ بنایا گیا اور امریکی سرکردگی میں کرڑوں معصوموں کا لہوجس بے دردی سے بہایا گیا۔۔ طاقت کے نشے میں مدہوش امریکہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ تاریخ اسے کس نام سے یاد رکھے گی؟امریکہ کے نقشِ قدم پر چلنے والا ایک اور متنازعہ کردار نریندر مودی دنیا کے امن کو تہہ و بالاکرنے پر تلا ہوا ہے۔ گجرات سے اس نے مسلم کشی کی جس روش کا آغاز کیا تھا وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔وہ کشمیر میں بھی گجرات کا ڈرامہ دہرانا چاہتا ہیاسی لئے تو اس نے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے جو اس کی سفاکیت کی دلیل ہے۔یہ سچ ہے کہ اس سے قبل دوسرے بھارتی حکمران بھی کشمیر میں قتلِ عام کے ذمہ دار تھے لیکن آج نریندر مودی جس طرح ظلم و ستم پر کمر بستہ ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ سات لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے کے لئے سڑکوں پر خون بہا رہی ہے اور نریندر مودی انھیں شاباشی دے رہا ہے۔حریت پسند کشمیریوں کو جب سات لاکھ فوج غلامی کا طوق پہنانے میں ناکام ہو گئی تو پلوامہ کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اس پر چڑھ ائی کر دی ۔
عالمی حدود کی خلاف ورزی کر کے کسی ملک کے اندر گھس جانا کھلی جارحیت ہوتی ہے اور بھارت نے اسی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اقوامِ عالم کو اس کی مذمت کرنی چائیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کرنے کے بعد موقف اپنایا کہ پلوامہ حملے کے پیچھے پاکستان کی دھشت گرد تنظیمیں ہیں لہذا انھیں سبق سکھایا جانا ضروری تھا اورجیشِ محمد کے ٹھکانوں پر ح،ہ اور ٢٥٠ دہشت گردوں کی پلاکت اسی کی کڑی ہے ۔ستم ظریفی تو دیکھئے کہ بھارت اپنی جارحیت کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا ۔دھشت گردی کو ساری اقوام ناپسند کرتی ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتی ہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر دھشت گردی کا الزام لگا کر اس پر چڑھائی کر دے ۔اس طرح تو پوری دنیا کا امن و امان تہہ و بالا ہو جائے گاجس سے یہ کرہِ ارض انتہائی غیر محفوظ ہو جائے گا۔اگر پلوامہ حمہ میں پاکستان ملوث تھا تو ضروری تھا کہ اس کے ثبوت دنیا کے سامنے رکھے جاتے تا کہ دنیا پاکستان کے خلاف مناسب کاروائی کرتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے بھارت نے اپنی عسکری برتری کے زعم میں پاکستان پر ہوائی حملہ کر دیا۔ایک نیو کلیرملک کے خلاف بلا جواز چڑھائی کرنا دنیا کا امن و امان تباہ و برباد کرنے کے مترادف جسے بھارت کی مکار قیادت دیکھنے سے قاصر ہے۔،۔
پاکستانی فوج کا شمار دنیا کی بہتریں افواج میں ہوتا ہے ۔دھشت گردی کی جنگ میں اس نے جس پامردی،ثابت قدمی اور جرات کے ساتھ دھشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے اس نے انھیں نیا حوصلہ دیا ہے۔پوری دنیا ان کی جراتوں کو تسلیم کرتی ہے اور ان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ ے دیکھتی ہے۔امریکہ جیسا مکار ملک بھی پاک فوج کی قربانیوں کا دل سے معترف ہے۔ بھارتی قیادت کو علم ہے کہ پاکستانی افواج کو شکست سے ہمکنار کرنا بھارتی فوج کے بس میں نہیں ہے کیونکہ عوام کی افواجِ پاکستان سے محبت اور یکجہتی نے افواجِ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔کوئی فوج تنہا جنگ جیت نہیں سکتی تا وقتیکہ عوام اپنی محبت سے فوج کی جھولیاں نہ بھر دیں۔١٩٦٥ کی جنگ میں ایسے ہی جذبے تھے اورآج ان جذبوں میں مزید شدت آ چکی ہے۔ویسے بھی بھارت سے پنجہ آزمائی ہو تو پوری قوم سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے بے تاب ہو تی ہے ۔ایک ایسی فوج جس کی پشت پر ٢٢ کروڑانسان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی شکل میں کھڑے ہوں اسے کون شکست سے ہمکنار کر سکتا ہے ؟ پاک فوج کی اعلی مہارت کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب پاکستانی ائر فورس کے مایہ ناز سپوت حسن صدیقی نے دشمن کے دو جہاز مار گرائے۔ستمبر ١٩٦٥ میں ایم ایم عالم نے پاکستان کو بھارتی طیاروں کا قبرستان بنایا تھا اور آج پاکستان کا ہر ہوا باز ایم ایم عالم بنا ہوا ہے۔
پاکستانی پائلٹوں کے سامنے بھارتی پائلٹ طفلِ مکتب ہیں اور میں ایسا اس لئے نہیں کہہ رہا کہ میں پاکستانی ہوں بلکہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک حقیقت کا بیان ہے جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے ستمبر ١٩٦٥ میں ہماری ائر فورس نے جس طرح بھارتی ائر فورس کو خاک چٹوائی تھی پوری دنیا اس کی گواہ ہے۔خود کو جنوبی ایشیا کا چوہدری سمجھنے والے بھارت کے لئے اس کے دو طیاروں کا مار گرایا جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور بھارت کے لئے یہ چوٹ ناقابلِ برداشت ہے۔وہ اس سے تلملا رہا ہے اور بدلے کی آگ میں جل رہا ہے۔وہ انتقام میں اندھا ہو چکا ہے اور کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کرے گا جس سے جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔وہ خود کو علاقے کا دادا سمجھ رہا تھا لیکن شاہینوں نے پہلے ہی وار میں اس کی دستار اور اس کے غرور کوو اس کے سر سے اتار کر خاک میں ملا دیا ہے۔نریندر مودی زعمِ باطل کا شکار تھا اور اسے اپنے زعم کی بھاری قیمت چکانا پڑ گئی ہے اور وہ کچھ ہو گیا ہے جو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔وہ تو پاکستان کو تر نوالہ سمجھ رہا تھا اور اسے سبق سکھانے کیلئے حملہ آور ہو ا تھا لیکن پہلے ہی وار میں اس کی ہوا نکل گئی۔
شاہینوں نے دو بھارتی جہازوں کو گرا کر بھارت کو جس ہزیمت سے دوچار کیا ہے وہ اس سے سکتے کے عالم میں ہے۔پاک فوج موت کو ہی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں لہذا وہ بھارتی جارحیت سے قطعا غافل نہیں ہیں ۔مر جانا جس فوج کیلئے مقصدِ حیات بن جائے اسے ہرانا کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔یہ سچ ہے کہ بھارت عددی لحاظ سے پاکستان سے چھ گنا بڑا ہے لیکن عددی برتری کب فتح کا فیصلہ کرتی ہے؟ روس تو افغانیوں سے کئی گنا بڑا تھا،امریکہ کے وسائل اور ٹیکنالوجی کا افغانیوں سے کوئی موازنہ نہیں ہے لیکن امریکہ پھر بھی افغانستان میں خاک چاٹنے پر مجبور ہے۔بھارتی سورما ئوں کا جب پاکستانی سورمائوں سے سامنا ہوتاہے تو ان کی گھگھی بند جاتی ہے کیونکہ بسالتوں کے پیکروں کے سامنے قائروں اور بزدلوں کا حال ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔پاک فوج اسلام کی اعلی روایات کی امین ہے اور اسلامی روایات کا پہلا سبق اپنی جان کو قربان کرنا ہو تا ہے۔پاک فوج کسی بھی حالت میں اسلامی روایات سے غافل نہیں ہو سکتی۔اسلامی روایات کاعلم تھامنا ہی پاک فوج کی طاقت کا حقیقی منبہ ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال