پنجابی پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ یہ ملک کی پچپن فیصد آبادی کی مادری زبان ہے۔ جبکہ پینسٹھ فیصد پاکستانی یہ زبان بولنا جانتے ہیں۔ پاکستان میں پنجابی زبان بولنے والوں کی تعداد کم و بیش دس کروڑ ہے۔ پنجابی زبان ہندوستان میں بھی بڑے پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پنجابی زبان کو ہندوستانی ریاستوں ہریانہ ، دلی میں دوئم زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ اس زبان کے بہت سے لہجے ہیں مختلف علاقوں اور خطوں میں مختلف لہجوں میں بولی جاتی ہے۔ پندرھویں سے انیسویں صدی کے دوران مسلمان صوفی بزرگوں نے پنجابی زبان میں بے مثال منظوم تحریریں رقم کیں۔ سب سے مقبول بزرگوں میں بابا بلھے شاہ شامل ہیں۔ جن کی شاعری قافیوں پر مشتمل ہے اسی طرح وارث شاہ کے قلم سے ہیر رانجھا کی محبت کا قصہ پنجاب ادب کی صنف قصہ خوانی کو امر کر چکا ہے۔ دیگر صوفیاء شعراء میں شاہ حسین ، سلطان باہو ، خواجہ فریدکا پنجابی کلام آج بھی دلوں پر راج کر رہا ہے۔ اس زبان میں ادب کا آغاز فرید الدین گنج بخش سے ہوتا ہے۔ اور بعد ازاں سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کا نام آتا ہے۔
میاں محمد بخش ، وارث شاہ ، ہاشم شاہ، منیر نیازی ، امریتا پریتم و دیگر کئی قدیم و جدید ادباء کی شاعری پنجاب ادب کا قیمتی اثاثہ ہے۔ پاکستانی پنجاب کے دل لاہور میں گزشتہ ہفتے دوسری سالانہ عالمی پنجاب کانفرنس کا انعقاد کیا گیا “لمز” یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے زیر اہتمام ہونے والی اس تین روزہ کانفرنس کو ، پنجاب تواریخ تے ثقافت،کا نام دیا گیا۔ جس میں ملکی اور غیر ملکی شعراء ، ادباء ، ماہرین تعلیم، دانشوروں نے شرکت کی ۔ مجموعی طور پر 14 سیشن رکھے گئے جس میں شرکاء نے مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ ڈین سوشل سائنسز کامران اصدر علی نے مندوبین کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ پنجاب کی دھرتی ہمیشہ محبت و رواداری ، امن اور بھائی چارے کی ضامن رہی ہے۔ نامور سکالر جاوید مجید نے پنجاب ، پنجابی زبان اور اس پر کام کرنے والے دانشوروں خاص طور پر گریرسن کے کام کے تناظر میں گفتگو کو آگے بڑھایا ۔ شرکاء کو دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ اسی طرح دوسرے روز مختلف اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی جس میں لاہور دی نویں تواریخ ، ناول راہیں ، پنجاب دی پچھان ، ونڈیاں یاداں ، پنجابی دی مزاحمتی شاعری، مقامی زباناں دے وچ ادب دی تعلیم، پنجاب وچ انقلابی سیاست، پنجاب دی زراعت ، پنجابی تے ڈیجیٹل لکھت پڑھت تے رواج ، پنجاب وچ فلم تے جدید تھیٹر، پنجاب دے ماڑے لوکاں دے حالات شامل تھے۔ جبکہ اسی روزی شام کو ہیر گائکی کا پروگرام بھی شامل کیا گیا۔
کانفرنس کے تیسرے روز بھی علمی ادبی و معلوماتی بحث و مباحثے جاری رہے جس میں دانشوروںنے مسائل و معاملات ، موجودہ زمانے میں زبانوں کو پیش چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی زبان اور اس میں موجودہ ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے سے متعلق خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس میں ہائی کورٹ پنجاب کے فیصلہ پر جس میں پنجابی زبان کو کلاس اول سے پنجم تک نصاب میں شامل کرکے لازمی مضمون کا درجہ دینے کے احکامات جاری کیئے گئے پر مسرت کا اظہار کیا گیا۔ اور اس مطالبہ پر زور دیا گیا کہ پنجابی زبان کو بنیادی تعلیم کا حصہ بنا کر ذرائع ابلاغ سے جوڑ کر نہ صرف تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔ اس اہم کانفرنس کے انعقاد اور اسے کامیاب بنانے میں پروفیسر علی عثمان قاسمی اور زاہد حسن نے جو کردار اداکیا وہ قابل ستائش ہے ۔ زاہد حسن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ آج کل ، لمز، میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کہانی نویس اور ناول نگار کے طور پر بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ اکیڈمی ادبیات کی طرف سے وارث شاہ ایوارڈ اور ناول پر ڈھاہاں ایوارڈ کینیڈا سے حاصل کر چکے ہیں۔ پنجاب کی تاریخ و ثقافت پر ان کی گہری نظرہے ۔ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ علی عثمان قاسمی کا شمار معروف دانشوروں میں ہوتا ہے۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔
ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے سائوتھ ایشیاء انسٹیٹیوٹ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ لائل ہولوے کالج میں نیوٹن فیلو فار پوسٹ ڈاکٹرل ریسرچ رہ چکے ہیں آپ کے مضامین دنیا بھر کے اہم جرائد و اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے پنجابی زبان کے لیے خدمات انجام دینے والے شعراء ، ادباء ، دانشوروں کی شرکت اس کی اہمیت کو اجاگر کرتی نظر آتی ہے۔ ان مہمانوں میں اجے بھار دواج ، این مرفی ، ٹونی کیپیسٹک ، گرپریت سنگھ لال ، شیرن کوریل ، گوندلن کرک ، کرس موفٹ، پیپار وردی جیسے نام شامل ہیں۔ جبکہ پاکستانی ادیبوں و دانشوروں میں جاوید مجید ، عمارہ مقصود، طاہر کامران ، سائرہ کاظمی ، زبیدہ مصطفی ، طارق رحمن، سرمد حسین، اشتیاق احمد، حسن جاوید ، فرح خان، عائشہ احمد، ہاشم بن احمد ، علی رضا ، قاسم ترندری ، نوید عالم، علی مقصود قاسمی، غلام محی الدین نظامی، نین سکھ، ہارون خالد ، حفیظ خان، مسرت کلانچوی، شکیل احمد طاہری، اقبال قیصر، فلم سٹار سید نور، پروین ملک ، طاہر اسیر ، توقیر چغتائی و دیگر شخصیات بھی کانفرنس کا حصہ رہیں جنہوںنے پنجابی زبان کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ پروین ملک کا شمار معروف پنجابی کہانی نویسوںمیں ہوتا ہے۔
آپ براڈ کاسٹر اور ترجمہ کار بھی ہیں محکمہ تعلقات عامہ پنجاب ایک لمبے عرصے تک خدمات انجام دے چکی ہیں۔ آبائی ضلع اٹک جبکہ مدتوں سے لاہور میںمقیم ہیں۔ توقیر چغتائی بھی اٹک کے مردم خیز خطہ سے آبائی تعلق رکھتے ہیں۔ مگر ایک عرصہ سے کراچی میں مقیم ہیں آپ کہانی نویس ، کالم نگار، شاعربھی ہیں کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی شہرت کی حامل شخصیت ہیں۔ آج کل ایک معروف نجی ٹی وی چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ محترم طاہر اسیر اٹک کی دھرتی کے عظیم فرزند جو برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبولیت رکھتے ہیں جنہوں نے کیمبلپوری لہجہ میں پنجاب لغت ترتیب دے کر ایک بہترین کام کیا ۔ آپ ایک ادبی مجلہ جمالیات کے مدیر بھی ہیں۔
پنجابی ادب کے لیے آپ کی بے پناہ خدمات ہیں درجنوں رسائل میں آپ کے مضامین اور پنجابی شاعری ، نظمیں، غزلیںاشاعت آشنا ہوتی رہتی ہیں۔ ماضی کے مقابلہ میں عالمی پنجاب کانفرنس اپنے موضوعات ، مباحث اور مسائل و معاملات کو سمجھنے کے ضمن میں کامیاب ترین کانفرنس رہی جس میں کم و بیش سولہ سیشن میں پچاس کے قریب ماہرین نے نقطہ ہائے نظر ، سفارشات و تجاویز پیش کیں ۔ یقینا زاہد حسن اور علی عثمان قاسمی کی پنجابی زبان کے فروغ کے لیے کوششیں خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ پنجاب تواریخ و ثقافت پر دوسری سالانہ کانفرنس پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔