سوشل میڈیا کا دور ہے۔ تقریباً ہر وہ بندہ اس سے جڑا ہوا ہے جس کے پاس سمارٹ فون ہے، بھلے وہ سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر ایکٹیو ہو۔ چاہے وہ فیس بک ہو، وٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹویٹر ہو۔ اس سوشل میڈیا کی بدولت ہمیں بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ بہت کچھ دیکھنے کو اور سننے کو مل جاتا ہے۔ اگر کوئی سخت ٹینشن میں ہے تو سوشل میڈیا کی سیر کر لے، ایک سے بڑھ کر ایک لطیفہ ملے گا۔ دنیا بھر کے جگت باز یہاں موجود ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت اب جگت بازی صرف فیصل آباد تک محدود نہیں رہی، اب یہاں ہمارے سکول کے بچے بھی چٹکلے چھوڑتے ہیں۔ آپ کی ساری ٹینشن ایک دم دور ہو جائے گی۔
دوسری طرف اگر کسی کا دل کی بھڑاس نکالنے کا دل کرتا ہے تو وہ بھی سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ کسی نے کسی کو بلیک میل کرنا ہے تو س۔ م۔، کسی کا گھر اجاڑنا ہے تو س۔ م۔ لیکن اسی سوشل میڈیا کو کچھ دوست مثبت کاموں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں. میرے دوستوں کی فہرست میں بہت سے ایسے ساتھی موجود ہیں جو لاجواب اور خوب صورت تحریریں لکھتے ہیں اور صرف لکھتے ہی نہیں بلکہ پہلے ان پر خود عمل کرتے ہیں اور پھردوسروں کو عمل کی تلقین کرتے ہیں۔آج بھی حسب معمول میں فیس بک پر آوارہ گردی کر رہا تھا تو ایک دوست ثمر خان ثمر جو کہ داریل، دیامر میں سکول ٹیچر ہیں اور بہت بہترین لکھتے ہیں، ان کی وال ہر ایک تحریر نظر آئی۔
سوچا کہ آپ سب کو بھی ان الفاظ سے مستفید کیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے اخلاقی طور پر ان سے اجازت لینا ضروری تھی، جو کہ میں فون پر لے لی۔ ان کا بڑا پن کہ کھلے دل سے اجازت بھی دی اور کہا کہ اگر کوئی اور بھی اس سے مستفید ہو جائے اور ان باتوں پر عمل ہو جائے توسمجھیں کہ ان کی تحریر کا مقصد پورا ہو گیا۔ لکھتے ہیں: ”بغرض تعلیم مختلف شہروں میں قیام پذیر طلبہ کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے میری باتیں آپ پر گراں گزریں ، ناگوار لگیں ، چونکہ آپ کی رگوں میں جوان خون دوڑ رہا ہے اور’جوانی دیوانی’ کے مصداق اکثر جوان ہوش کو کم اور جوش کو زیادہ کام میں لاتے ہیں۔ احساس تو تب ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔۔۔۔۔آپ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں۔ انشااللہ بات کی تہ تک پہنچ جائیں گے۔
جیسا کہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ حصول تعلیم کی خاطر گھربار سے میلوں دور کء طلبہ مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اْنہوں نے اپنا نصب العین تقریباً فراموش کر دیا ہے۔ پارٹیوں اور تنظیموں کے بینرز اور پوسٹرز آویزاں کرنا ، جلسوں اور مٹینگوں کا انعقاد کرنا ، ظہرانوں اور عشائیوں کا اہتمام کرنا اور ان سرگرمیوں کے بعد باقی بچ جانے والے لمحات سوشل میڈیا پر پبلسٹی کے لیے دینا معمول بن گیا ہے۔ یہ انتہائی لمحہ فکریہ ہے۔ سیاسی پارٹیاں تو ہیں ہی ، مگر اب سماجی تنظیمیں بھی تواتر سے وجود پا رہی ہیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن ایک الگ نام سے ایک نئی تنظیم وجود میں آتی ہے اور پھر تبلیغ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں کسی سیاسی پارٹی یا سماجی تنظیم کا مخالف نہیں ہوں۔ علاقائی سطح پر بننے والی تنظیموں کو سراہتا ہوں۔
ان تنظیموں کے استحکام کے لیے حتی الوسع سعی بھی کرتا رہا ہوں۔ یہ تنظیمیں علاقے میں لوگوں کے اندر شعور و آگہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ لیکن یہ کام آپ کا نہیں ہے۔ آپ کا مستقبل ان تنظیموں کے جھنڈوں تلے پوشیدہ ہے نہ نعروں کی گونج میں چھپا ہوا ہے بلکہ کتابوں کے سائے تلے نہاں ہے۔ آپ کا کام ہے صرف اور صرف کتاب دوستی اور بس۔۔۔۔۔۔ فرض کیا اگر کسی تنظیم سے وابستگی ناگزیر ہے تو ایک حد میں رہ کر تعلق رکھا جائے ۔ ہر چیز اپنی حد میں بھلی لگتی ہے اور اگر حد پھلانگ لی جائے تو کوئی بھی شے اچھی نہیں لگتی۔
آپ کو یہ طے کرنا ہے کہ آپ کا فرض، آپ کی ذمہ داری کیا ہے؟ گھر والے آپ پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ کتاب کو کتنا وقت دیتے ہیں اور تنظیم کو کتنا۔۔۔۔۔۔؟ کیا آپ کی سرگرمیوں کی خبر آپ کے والدین رکھتے ہیں؟ کیا آپ میں سے کسی کے سرپرست نے کسی پارٹی یا تنظیم کا حصہ بننے کی اجازت دے رکھی ہے؟ اور اگر نہیں دی ہے تو کیا آپ اپنے گھر والوں کی اْمنگوں کا خون نہیں کر رہے ہیں؟ کیا آپ دغابازی کے زمرے میں نہیں آتے ہیں؟آپ کا کام کسی پارٹی یا تنظیم کے لیے انتظامات کرنا اور چندے بٹورنا نہیں ہے بلکہ دل لگا کر تعلیم حاصل کرنا ہے۔ آپ کی کامیابی کا راز پڑھائی ، پڑھائی اور صرف پڑھائی میں مضمر ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آج طالب علم اور پڑھائی کے درمیان حائل سب بڑی رکاوٹوں میں یہ “کارکنی اور سوشل میڈیا کا کثرت استعمال ” شامل ہیں۔ یہ چیزیں بخدا ایک طالب علم کی زندگی میں زہر ہلاہل کا کام دے رہی ہیں۔ کم از کم اپنے علاقائی سطح پر بننے والی سماجی تنظیموں کے ذمہ داران سے میری دستہ بستہ گزارش ہوگی کہ خدارا طالب علموں کو مت گھسیٹیں۔۔۔انھیں پڑھنے دیں۔ یہ کام طلبہ کا نہیں ہے ، یہ آپ جیسے مخلص ، دردمند ، خدمتگار اور ملنسار جوانوں کا ہے۔”
آپ نے ثمر خان ثمر کے الفاظ پڑھے۔ میں ان میں یہ اضافہ کروں گا کہ آپ تعلیم پر ضرور توجہ دیں، لیکن ساتھ ساتھ اپنی آخرت کو بھی سنواریں۔ ہم دین سے اتنا دور آچکے ہیں کہ ہمارا دین صرف نعروں تک رہ گیا ہے۔ ہم مولویوں کے بہکاوے میں آسانی سے آجاتے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں، من و عن اسے تسلیم کر لیتے ہیں۔یا پھر ہم سوشل میڈیا پر جو کچھ دیکھتے ہیں، یا پڑھتے ہیں اس پر ہم اس طرح رد عمل کرتے ہیں جیسے ہم عقل کل ہیں۔ یا ہم بہت بڑے عالم ہیں۔ ہم ایک معمولی سی سنت پر تو عمل کرتے نہیں،اور چلے ہیں کسی بات کو سچ تسلیم کرنے یا اس کو کلی طور پر رد کرنے۔ دوسرا ہمارا وتیرہ بن گیا ہے کہ ہم ایک دم سے فتویٰ لاگو کر دیتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے۔ اور یہ بات کہنے والا فوراً کلمہ پڑھ کر تجدید ایمان کرے۔
ایمان نہ تو اتنا کمزور ہوتا ہے کہ بندہ اس کے دائرہ سے نکل جائے، ہاں گناہِ کبیرہ کا مرتکب ضرور ہوتا ہے۔۔ اور نہ ہی دین اتنامضبوط ہوتا ہے کہ دوسروں کی باتوں میں آکر ہم اسے سچ نہ سمجھ بیٹھیں۔ اس سوشل میڈیا کی بدولت ہم مختلف تحریکیں بھی چلا رہے ہیں، لیکن دوسروں کو صرف مسلمان رکھنے کی تحریک کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ ہاں فرقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر بہت کچھ ملے گا۔ اور دوسروں پر انگلیاں بھی اٹھاتے ہیںجب اپنے فرقے کی تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔ خدارا، آپ صرف مسلمان رہیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر رکھیں تو کامیابی ، حقیقی کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سرخروئی آپ کا نصیب ہو گی۔