اللہ تعالیٰ نے انسان کو خود پیدا کیا اور اس کو اس کائنات پر سرداری عنایت کی اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس میں رہ کر امن و سکون کی زندگی بسر کرنے کے ساتھ اللہ کی اطاعت و بندگی کرے لیکن انسان کو ٹھوکر لگی تو اس نے اس میں ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانا شروع کردیا جبکہ یہ عمل ناپسندیدہ اور حرام ہے۔ کیا خون بہانا اس قدر آسان ہوگیا ہے؟ہم جانتے ہیں کہ مذاہب امن و سلامتی اور رواداری کی طرف بلاتے ہیں اور اختلاف دین و مذہب یا فکر کے باوجود بھی حسن معاشرت کی ترغیب دیتے ہیں۔افلاطون بھی مثالی شہر کا تصور پیش کرتا ہے جہاں پر کشت و خون کا بازار گرم نہ ہوتاہوں۔لیکن افلاطون کی یہ خواہش پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی کہ اس وقت کی قوم خون بہانے کو محبوب رکھتی تھی۔لیکن اللہ کے پیغمبروں نے اس تصور کو عملی جامہ پہنایا کہ انسانیت کی بستی دنیا میں مسلم و غیر مسلم باختلاف فکر و نظر حسن معاملہ اور حسن معاشرت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔یہاں تک کے بد سے بدتر لوگوں کے ساتھ بھی اسلام نے مسلمانوں کو ترغیب دی کے ان کے ساتھ رواداری کو فروغ دیا جائے۔دین نے زندگی کو بہتر طورپر گذارنے کے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ان کو قبولیت عامہ حاصل ہوگئی اور عامة الناس نے ان اصول و مبادی کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرلیا۔لیکن اس سب کے باوجود برائی کی قوت کارگر عمل ہونے کی وجہ سے لوگوں میں یہ فکر موجود رہی ہے کہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچاتے رہیں،یہاں تک کہ ان کو قتل بھی کردیا جاتارہاہے۔کیا یہ انسانیت ہے؟
تاریخ شاہد ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ خوش اسلوبی کے ساتھ باہم سکونت بذیر رہے ہیںباوجود اپنے اپنے دین پر عمل پیرارہنے کے ۔اگر اسلام انسانوں کا خون بہانے کا روادار ہوتا تو دنیامیں آج مختلف مذاہب کے لوگ زندہ ہی نہ ہوتے اور آج کوئی کسی کی بھی عبادت نہ کرنے والا زندہ ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کشت و خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ پسند کرتا ہے کہ بے گناہ لوگوں کا خون بہا یا جائے۔البتہ مغر ب انسانیت کا خون بہانے سے فوائدحاصل کرنے کی ٹوہ میں مصروف رہتاہے۔تاہم مغرب صر ف اور صرف مسلمانوں کا خون بہانے کو سعادت سمجھتاہے۔جس قدر بھی مغرب کی داستان خون آشام کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ صرف اہل اسلام کا قتل عام کیا جاتارہاہے۔
اسلام نے مسلمانوں کو حق دیاہے کہ وہ اپنی جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کرے یعنی اگر کوئی اس پر سرکشی و طغیانی کرتاہے تو وہ اپنے دفاع کی خاطر مقابلہ کرسکتاہے۔قرآن کریم میں ارشاد جل شانہ ہے کہ”لڑائی کرو اللہ کے راستے میں جو تم سے لڑتے ہیں ان سے ،لیکن اس میں زیادتی نہ کرو،بیشک اللہ تعالیٰ سرکشی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔”اسلا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ سرکشوں اور طاغی گروہوں کے سامنے سرتسلیم خم کیے رہا جائے۔البتہ اسلام جنگ کرنے میں پہل نہیں کرتا اور نہ ہی کسی پر عداونیت و سرکشی کی اجازت دیتاہے۔اسلام دفاع کی جب اجازت دیتا ہے وہیں پر یہ بھی تاکید کرتاہے کہ کسیی بھی غیر جنگجو، بچے، بوڑھے اور عورت وغیر کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
مسلمان ہی امتوں میں سے پہلی امت ہے جس نے تسامح و رواداری کا دنیا کوپیغام دیا ،دنیا کو اسلام کے زمانہ خلافت میں ہی امن و سلامتی کی زندگی بسر کرنے کا موقع میسر آیا۔اسلام نے مسلمان درکنار غیر مسلموں کے ساتھ بھی الفت و محبت اورعزت و تکریم کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے۔یہاں تک کہ عیسائی و یہودی مسلمانوں کے ساتھ بادشاہوں اور گورنروں کے درباروں میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔مسلمانوں نے غیر مسلموں کے دلوں کو پیار و محبت سے فتح کیا اور کبھی بھی مسلمانوں نے خون ناحق نہیں بہنے دیاجیسے کہ ان کے دشمن کرتے تھے۔مسلمانوں نے کبھی خیانت نہیں کی دشمن کے ساتھ اوراس طرح زندگی کو عدل و انصاف کے پیمانہ پر رکھ کر بسر کی کے مسلم و غیر مسلم باہم خوشحال تھے۔
جولوگ مسلمانوں پر تہمت لگاتے ہیں کہ وہ قتل و غارت گری کو پسند کرتے ہیں وہ سفید جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ مسلمان جنگ کو کسی صورت پسند نہیں کرتا ۔قرآن کریم میں ارشاد جل وعلاہے کہ ”لکھ دیا گیاہے جنگ کو آپ کے لیے اگرچہ تم پر یہ ناگوار گزرتاہے”انسان اللہ کو کیسے پہچان سکتاہے جب کہ وہ زمین پر خون ناحق بہاتا ہواور زمین پر فتنہ و فساد کے ذریعہ سے اپنی ریاست کی بنارکھنے کا خواہشمند ہو؟اسلام نے تو دشمن کے احترام کی تاکید یہاں تک کی ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوجائے تو بھی اس کے ساتھ حسن معاملہ کیا جائے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”یتیم و مسکین اور قیدی کو خوشی کے ساتھ کھانا کھلائو”۔کیا اسلام سے زیادہ کوئی روادار دین ہے جو تاکید کرتاہے قیدی کے احترام اور اس کو بہتر کھاناکھلانے کا۔اور احسان کا معاملہ روارکھنے کا۔
اسلا م نے رواداری کا پیغام دیا ہے اور بغیر کسی حیل وحجت دوسروں کو دل سے قبول کرنے کو رواج دیا ہے۔ اسلام نے اپنی تہذیب و ثقافت میں رواداری کو اس حدتک رواج دیا کہ مسلمانوں نے غیر مسلم عورتوں کے ساتھ شادی کی۔قدیم سلطنتوں نے مشاہدہ کیا کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانیت اور رحمت کا پیمبر ہے۔اس کے باوجود بھی ہم نہیں دیکھتے کہ دنیا میں خون بہایا جاتاہے تو صرف مسلمانوں کا خون بہتاہے۔مسلمانوں نے ایسا کیا کردیا ہے کہ ان کا خون دنیا بھر میں بہایا جاتا ہے؟!کیا کوئی عالمی اتحاد و تنظیم اس پر بات کرتی ہے یا یہ کہتی نظر آتی ہے کہ یہ غلط ہورہاہے؟کیا سرکشوں کی سرکوبی کے لیے کوئی سزا مقرر کی گئیں؟!مسلمان صرف اپنی ذات کا دفاع کرتے ہیں۔اور اس امر میں بھی نیکی کے راستے پر گامزن رہتے ہیں۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام ہر کافر کو قتل کرنے کی اجازت دیتاہے ،یہ تصور بالکل باطل اور غلط ہے ۔ دشمنان اسلام کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اسلام پر تہمت لگاتے رہیںاور وہ بھی جھوٹ کا سہارالیکر۔حضرت عبداللہ بن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ”لڑائی کرواللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے لڑتے ہیں ، زیادتی نہ کرو ،بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا”نہ قتل کرو عورت کو ،نہ بچوں کو نہ ہی بوڑھے کو ،نہ اس کو جس نے ہتھیار ڈال دئیے ،اور اپنے ہاتھ کو روک لو اس سے جو جنگ نہیں کرتا،اس کے شر سے بچتے ہوئے اس کو امان دو،مسلمان ان افعال کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔جبکہ شرح سعید بن عبدالعزیز میں ہے کہ کسی راہب کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا ۔اس سے مراد وہ راہب ہے جو صرف عبادت و ریاضت میں مشغول ہو اور اس سے مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔
بیشک اسلام نے انسانیت کی عزت و تکریم کی ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ”اے انسان تجھے اپنے پروردگار کے بارے میں کس نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے؟وہ جس نے تمہیں پیدا کیا ،درست کیا اور متوازن بنایا”۔تو کیا اسلام جو اللہ کا عنایت کردہ دین ہے اس میں انسانیت کے قتل کو آسانی کے ساتھ حلال قراردیا جائے گا؟۔رسول اللہۖ کا ارشاد ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عمارت (تخلیق)ہے وہ شخص ملعون ہے جو اس کو گرادے۔اور آج کے دن درست نہیں کہ ہم حق کے سوا کوئی بات کریں۔