اسلام آباد (جیوڈیسک) حکومت پاکستان نے سینکڑوں کی تعداد میں کالعدم تنظیموں کے مدارس، مساجد اور طبی سہولیات کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ کالعدم جیشِ محمد اور جماعت الدعوہ سمیت کچھ اور کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
وزراتِ داخلہ کے مطابق ایسے مدارس کی تعداد ایک سوبیاسی ہے جب کہ گرفتار یا حراست میں لیے جانے والے افراد کی تعداد بھی ایک سو اکیس ہے اور مزید افراد کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
اس کے علاوہ چونتیس اسکول و کالج، ایک سو تریسٹھ ڈسپنسریاں، ایک سو چوارسی ایمبولینسیں، پانچ اسپتال اور آٹھ دفاتربھی حکومتی تحویل میں لیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ایک حکومتی منتظم ہے، جو ان کی نگرانی کر رہا ہے۔ کئی شہروں میں ڈپٹی کمشنر منتظم کی ذمہ داریاں سنبھال رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ مزید مدارس کو حکومتی تحویل میں لے لیا جائے گا۔
لاہور، مریدکے، راولپنڈی اور اسلام آباد میں ذرائع کے مطابق ان میں سے زیادہ تر مدارس اور مساجد جماعت الدعوہ کی ہیں جب کی فلاحی اداروں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی تنظیم سے یا اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاونڈیشن کی ہے۔ اسلام آباد میں جماعت الدعوہ کے مرکز کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ تاہم کالعدم تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومتی کنڑول میں لیے جانے والے اداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور حکومت جان بوجھ کر انہیں کم دکھا رہی ہے۔
جماعت الدعوہ کے ایک اہم رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے تین سو سے زائد اسکولوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ستر سے اسی کے قریب مدارس ہیں، جن کو حکومتی تحویل میں لے کر وہاں زیرِ تعلیم بچوں کو نکال دیا گیا ہے۔ کئی مساجد میں حکومت نے پیش امام اور موذن بھی تبدیل کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ فلاح انسانیت کے تحت چلنے والے اسپتال اور فلاحی ڈسپنسریوں کا کنڑول بھی حکومت نے سنبھال لیا ہے۔ کارکنوں کے گھروں پر چھاپے بھی مارے جارہے ہیں۔ ہم اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے جارہے ہیں۔‘‘
دوسری طرف حکومت کے مختلف حلقے مختلف اعداد و شمار دے رہے ہیں۔ وزارتِ داخلہ ایسے مدارس کی تعداد ایک سو بیاسی بتاتی ہے۔ لیکن پنجاب حکومت کے وزیرِ اطلاعات صمام بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی تعداد مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم نے پنجاب میں صرف ان مدارس اور مساجد کے خلاف کارروائی کی ہے، جن کے حوالے سے ہمارے پاس رپورٹ ہیں۔ ایک سو بیاسی بہت بڑی تعداد ہے۔ میرے خیال میں یہ نمبر درست نہیں۔ جو لوگ آئین کے دائرے میں کام کر رہے ہیں، حکومت انہیں کچھ نہیں کہہ رہی۔‘‘
جیشِ محمد کے بہاولپور مرکز کو پہلے ہیں حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے، جب کہ کراچی میں احسن آباد اور سخی حسن کے علاقے میں قائم مساجد سے بھی اس گروپ کا قبضہ ختم کر دیا گیا ہے۔پشاور میں بھی اس کی ایک مسجد کو قبضے میں لیا گیا ہے۔
کالعدم تنظیم انصار الامہ کے، جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل ماضی میں اسامہ بن لادن کے ساتھی رہے ہیں اور حرکت الانصار اورحرکت المجاہدین میں بھی انہوں نے کام کیا ہے، اسلام آباد میں قائم مدرسہ و مسجد کو حکومتی تحویل میں لے کر وہاں پیشِ امام کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس تنظیم کے درجنوں دوسرے مدارس جو ملک کے مختلف حصوں میں واقع ہیں، انہیں ابھی چھیڑا نہیں گیا ہے۔
واضح رہے کہ پورے ملک میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد تقریبا پینتیس ہزار تین سو سینتیس ہے، جس میں پینتیس لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مدارس کی تعداد حکومتی اندازے سے بہت زیادہ ہے۔ کچھ ماہرین کے خیال میں رجسڑڈ اور غیر رجسڑڈ تعداد ملا کر کوئی اسی ہزار کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مدارس دیوبندی مکتبہ فکر کی ہے، جو چالیس ہزار سے زیادہ ہے جب کہ دوسرے نمبر پر بریلوی ، تیسرے نمبر پر اہلِ تشیع اور چوتھے پر اہلحدیث مکتبہء فکر کے مدارس ہیں۔
پنجاب پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ کریک ڈاؤن میں سب سے زیادہ مدارس اور ادارے جماعت الدعوہ کے ہیں، جو حکومتی کنڑول میں لیے گئے ہیں ۔زیادہ تر حکومتی تحویل میں لیے جانے والے ادارے پنجاب میں قائم تھے۔