الانعام 19 ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر (قرین انصاف) کس کی شھادت ہے؟ کہہ دو اللہ ہی مجھ پر اور تم پر گواہ ہے اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ (قرآن) پہنچ سکےاس کو آگاہ کردوں کیا تم اس بات کی شھادت دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ اے محمد ! کہ دیجیے کہ میں تو (ایسی) گواہی نہیں دیتا میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم شریک بناتے ہو
جناب چیف جسٹس آف پاکستان آصف کھوسہ صاحب آپ کا بیان پڑہا سچی گواہی دی جائے اور جھوٹی گواہی پر سزا اور بیان بھی مسترد ہو گا زبردست بیان مگر کیا جھوٹ کے سال ہا سال سے قائم معاشرے میں یہ حکم فوری نافذ ہو سکے گا؟ 23 سال لگے عظیم الشان اسلام کے انقلاب کو بپا کرنے میں حق آیا اور اس نے کفر شرک کا طاغوتی نظام لپیٹ دیا حاکمیت صرف اللہ کی قائم کی گئی دوسرا انقلاب ہم نے 19947 میں دیکھا برصغیر پاک و ہند کے نقشے پر پاکستان ابھرتے دیکھا جناب والا غیر اسلامی نظام نے امیر غریب کی تفریق اتنی بڑہا دی کہ غریب خصوصا دور دیہات میں بڑی تعداد میں غرباء اللہ پاک کے قرآن سے نماز سے دین سے دور زندگی گزار رہے ہیں جو کسی وڈیرے کے اشارے سے شروع ہوتی ہے اور دو وقت کی روٹی دو جوڑے کپڑوں کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے ایسے لوگ کیا سچی گواہی دیں گے ؟ جہاں اللہ کی ذات کی اہمیت شان بڑائی ہی معلوم نہ ہو وہاں جھوٹی گواہی اور سچی گواہی کی پہچان کیا ممکن ہے؟ جناب والا گواہی سچی اور قتل کا فیصلہ اس غیر منصف معاشرے میں چار دن میں؟ یہ سن کر ایسا ہی لگا جیسے آپ نے کہا ہو قرآن پاک کو4 دن میں پڑھے بغیر 5 دن بعد آ کر سرٹیفیکیٹ لے کر درس و تدریس شروع کر دو جناب نظام کی تبدیلی احکامات کی فوری تعمیل سے نہیں عمل کی ترویج سے ہوتی ہے جبر سے یا حکم سے کوئی مجبور کیسے سچی گواہی دے گا؟ جس کی بیٹیاں چوھدری کے پیسے سے بیاہی جانی ہوں؟ حکم صادر کرتے ہوئے وقت اپنے گرد و نواح میں نگاہ تو دوڑائیں مجبوروں کا نیلام گھر ہے یہ ملک ہر ادارہ مافیا بنا دیا گیا آپ کے ملک کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو مجبوریوں کی سودے بازی نہ کرتا ہو؟ ایسی بے حسی سنگدلی کیوں؟ اس لئے کہ مندرجہ بالا آیت کا مفہوم کوئی سمجھ ہی نہیں پایا یہاں ہر صاحب حیثیت خود کو نعوز باللہ خدا سمجھ بیٹھا اللہ کا حساب اللہ کا قہر اس کا عذاب اس ظالم دنیا میں یہ پِسا ہوا طبقہ بھول گیا نہ کوئی دینی ادارہ نہ کوئی اسلام شناس معلم نہ ہی کوئی درس و تدریس کا اہتمام جناب اس فریب نگاہ دنیا میں ایک ظالم ہے جو ظلم میں خود کو نمرود فرعون کا ہم پلہ سمجھ بیٹھا دوسری جانب وہ غلام اور اس کا پِستا ہوا خاندان ہے یہ ماحول 90 فیصد ملک میں قائم ہے آپ سوچتے ہیں ایک حکم دیں گے اور زنگ آلود قفل پڑے یہ دل اس پکار پر سچی گواہی دینا شروع کریں گے اللہ کے خوف سے لرز اٹھیں گے اور آخرت میں اپنے انجام کو یاد کر کے اللہ کی خاطر سچ بولیں گے؟ نہیں جناب والا خوش فہمیوں کے دور سے باہر نکلیں ایسا کچھ نہیں ہونے والا ظلم کا قفس ایسا حصار کھینچ چکا کہ اب انہیں اس تاریکی سے شعور کی طرف نکالیں گے تو یہ مر ہی جائیں گے ان کے نزدیک اللہ کی پکڑ دنیا کی سزا کوئی معنی نہیں رکھتی وجہ انہیں مرعوب کرتے ہیں وہ احسانات جو وڈیرے کے چوھدری کے جاگیردار کے ہیں وفادار ایسا ہے کہ مجبورویوں کے عوض وہ گواہی تو کیا جان بھی دے سکتا ہے یہ نظام آپ کے حکم سے نہیں بلکہ قرآن کی تعلیمات کے پھیلاؤ سے بہتر ہوگا سچ کی اہمیت اس کا اجر اور معاشرے پر اس کے خوبصورت مثبت اثرات صرف اور صرف قرآن پاک کے ترجمے کے بعد آئے گی جب قرآن کا اصل مقصد “”فرقان”” پورا ہوگا ان کے دل کی مٹی سوکھ کر سخت ہو گئی اس پر جب قرآن کی آیات کی بوندیں پھوار کی صورت اتریں گی تو دل کی مٹی نرم ہو گی یہ قرآن کیا ہے ایسی تاثیر کیسے ممکن ہے ؟ جناب والا درخواست ہے کہ آپ بھی اپنے مصروف وقت میں سے روزانہ کچھ وقت نکال کر اسے ترجمے سے پڑہیں پھر آپکو معلوم ہوگا احکامات سے سچی گواہی حاصل نہیں ہوتی قرآن اور صرف قرآن ہے جو پھیلایا جائے تو ہر طرف سچائی پھیلے گی تب ملے گی سچی گواہی قرآن شعور کھولتا ہے بتاتا ہے کہ اللہ کا خوف حساب کا ڈر اللہ کے سامنے پیشی کی سوچ اپنی زندگی کے منفی عوامل غور و فکر پر مائل کرتے ہیں تب میرے رب کے ایمان کے اس “”بیج”” کا کمال یہ ہوتا ہے انسان کی ظاہری باطنی دنیا بدل جاتی ہے عارضی کامیابی کیلئے بولے جانے والے جھوٹ سے انسان تائب ہو کر اخروی انعام کیلئے سختی جھیلتا ہے ہمیشہ سچ بولتا ہے یوں شیطان کی تاریک دنیا سے نکل کر رب کائنات کی ہدایت پا کر روشن زندگی کی طرف سفر شروع کرتا ہے یہ ہے وہ سفر اور وہ آغاز جس میں صرف سچائی ہے جناب چیف جسٹس صاحب میرے ملک میں اس وقت مومن اور مومنات نہیں زیادہ تر مجسمے رہ رہے ہیں جو سچے رب کے آگے عاجزی سے جھک نہی رہے کہ دنیا کی آلائشوں نے مشغولیات نے انہیں بھلا دیا کہ ان کی تخلیق کا اصل مقصد اپنے رب کعبہ کی بندگی ہے صرف ایک رب کی بندگی وہ جھک رہے ہیں مگر اپنے جیسے کمزور مجسموں کو معبود بنا کر عارضی وقتی سطحی کامیابی کے لئے ان کے آگے گھٹنے ٹیکے سر جھکائے عاجزی سے بیٹھے کامیابی کا کشکول بھر رہے ہیں جبکہ وہ صرف اپنے ایک رب کو راضی کر لیں تو ان کمزور مجسموں کی نقاہت خود ہی جان لیتے بھاگتا دوڑتا ہر پل کشید کرتا ہے ناکام کامیابیوں کیلئے نجانے کس کس کو اپنا معبود بنا بیٹھا کہ سب کے آگے تو خضوع و خشوع سے جھکتا ہے مگر نہیں جھکتا تو اپنے اللہ کے آگے نہیں جھکتا یہاں تک کہ
یہ مجسمے موت کے آہنی وار سے ٹوٹ جاتے ہیں مگر زندگی میں اس رب واحد کے آگے جھکتے نہیں افسوس صد افسوس یہ مجسمہ بنے لوگ فنکشنز پارٹیز دیگر مواقع پر آپ ان سب کو پیش پیش مسکراتے ہوئے خندہ پیشانی سے سب کو ملتے دیکھیں گے جیسے ہی بات اللہ کی ہوگی قرآن کی ہوگی وقت نہیں ملتا ملائمت سے معذرت اور پھر وہاں سے غائب ہو جائیں گے جناب چیف جسٹس صاحب ان سے کہنا ہے اے مجسمو! موت کے آہنی گرز سے ٹوٹنے سے پہلے للہِ اپنے رب کے آگے جھک جاؤ ٌکیونکہ جسے جھکنا آگیا وہ فلاح پا گیا فلاح پانے والا وہ ہے جو سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا تب ملے گی آپ کو”” سچی گواہی “” انشاءاللہ