سات عشروں سے جاری کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی پر عالمی ضمیر تو بے ضمیری کی ”بُکل” مارے سوتا رہا لیکن اِس جنت نظیر وادی کے باسیوں کے بہتے لہو نے بھارت اور کشمیر کے درمیان خون کی ایسی لکیر کھینچ دی ہے جسے عبور کرنا اب بھارت کے بس کا روگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارت کے اندر سے بھی کشمیر کے حق میں آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ دنیا یہ بھی جان چکی کہ کشمیر میں ہونے والی ساری جدوجہد کشمیریوں کے اندر ابھرنے والے جذبۂ حریت کی پیداوار ہے جسے کسی بھی صورت میں دہشت گردی سے جوڑنا مناسب نہیں۔
کشمیر کی پاکستان سے جذباتی وابستگی کا یہ عالم کہ بھارتی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہر کشمیری شہید کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپردِخاک کیا جاتا ہے۔ دو سال پہلے جب کشمیری ہیرو برہان مظفر وانی کو لاکھوں افراد کی موجودگی میںدفن کیا جا رہا تھا تو ہر زبان پہ ”پاکستان زندہ باد” کا نعرہ تھا۔ ایک گیارہ سالہ کشمیری بچی کو جب پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر منوں مٹی تلے دفن کیا جا رہا تھا تو اُس کی ماں کی زبان پربھی ”پاکستان زندہ باد” کا نعرہ تھا۔ یہ بجا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم 5فروری کو ”یومِ یکجہتی کشمیر” بھی بڑی جوش وجذبے سے مناتے ہیں اور ہم نے ”کشمیر کمیٹی” بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ سوال مگر یہ کہ کشمیر کمیٹی نے آج تک کشمیری بھائیوں کے لیے کیا کارنامہ سرانجام دیا؟۔ پہلے ایک عرصے تک مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے، اب تحریکِ انصاف کے سیّد فخر امام ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خاں سے سوال کیا گیا کہ سیّدفخر امام کشمیر کمیٹی میں کیا کریں گے تو اُنہوں نے مسکرا کر جواب دیا ”وہی جو مولانا فضل الرحمٰن کیا کرتے تھے”۔ کشمیریوں کی پاکستان سے الفت ومحبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم اُن کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں۔ اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم عالمی ضمیر کو ہی متواتر جھنجھوڑتے رہیں لیکن ہمیں تو اپنے اندرونی ”پھڈوں” سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ہم تو شاید یہ بھی بھول چکے کہ قائدِاعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا تھا اور جب شہ رَگ دشمن کے ہاتھ میں ہو تو پھر انجام سبھی کو معلوم۔ لاریب اِس معاملے میں ہم کشمیریوں کے مقروض ہیںاور اِس قرض کی ادائیگی ہم پر فرض۔
دوسری طرف انسانیت دشمن اور جنونی دہشت گرد کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو دیکھ کر اتنابوکھلا چکاکہ پلوانا خودکش حملے جیسے ”ڈراموں” پر اتر آیا۔ وہ انسانی لاشوں کی سیڑھیاں بنا کرایک دفعہ پھربھارت پر مسلط ہونے کی تگ ودَو میں ہے۔ پانچ مختلف ریاستوں میں بُری ہزیمت کے بعد اُس نے سوچا ہوگا کہ جس طرح گجرات میں بابری مسجد کی شہادت اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے وہ گجرات کا وزیرِاعلیٰ بنا، اُسی طرح پلوامہ کا ڈرامہ رچا کر، جنونی ہندوؤں کے ووٹوں کے بَل پر 2019ء کے عام انتخابات جیت جائے گالیکن اُس کا یہ ڈرامہ بُری طرح فلاپ ہو چکا۔ اُس نے پلوامہ کا بہانہ بنا کرپاکستان میں دَراندازی کی اور پھر پورا بھارتی میڈیا اقوام عالم کو قائل کرنے کی تگ ودَو کرنے لگا کہ بھارت نے ”سرجیکل سٹرائیک” کرتے ہوئے بالاکوٹ (خیبرپختونخوا) میں قائم جیشِ محمد کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا اور تین سو دہشت گرد مار دیئے گئے لیکن جب اقوامِ عالم پر حقیقت عیاں ہوئی اور ”گوگل سرچ” سے بھی ثابت ہو گیاکہ ”بھارتی سورماؤں” کے حملے سے چند درخت گرے اور ایک ”کوّا” مارا گیا تو بھارتی حکومت کی جگ ہنسائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے۔ بھارت کے اندر بھی اکیس اپوزیشن جماعتیں نریندرمودی کی ”کلاس” لے رہی ہیں۔
سبھی اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں کہ بی جے پی لاشوں کی سیاست کر رہی ہے۔ بھارتی اپوزیشن کانگرس کے صدر، راہول گاندھی نے کہا کہ وزیرِاعظم مودی نے اتنے جھوٹ بولے جتنے بھارت کے تمام وزرائے اعظم نے مل کر بھی نہ بولے ہوںگے۔ ”تھوتھا چنا، باجے گھنا” کے مصداق نریندر مودی اب اپوزیشن جماعتوں پر برس رہا ہے۔ اُس نے کہا ” بھارتی اپوزیشن پاکستان کا ہتھیار بن رہی ہے۔ ملک دشمن اپوزیشن قومی مفاد کو نقصان اور سیاسی فوائد کے لیے جان بوجھ کر ہوائی حملے اور فوجی نوجوانوں کی بہادری پر سوالات اٹھا رہی ہے”۔۔۔۔ مودی جی! صرف بھارتی اپوزیشن ہی نہیں، پوری دنیا آپ پر ہنس رہی ہے۔ جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن آپ کا جھوٹ بے حدوحساب۔ پاکستان کی طرف سے جوابی حملے کے بعد آپ کی حکومت نے شور مچا دیا کہ یہ حملہ F-16 طیاروں نے کیاجبکہ جوابی حملہ پاکستانی ساختہ JF-17 تھنڈر طیاروں کے ذریعے کیا گیا۔ اِس میں کوئی F-16 شامل ہی نہیں تھا۔ پھر یہ شور مچایا گیا کہ F-16 کے ذریعے حملہ کرنے کے لیے امریکی اجازت ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے سابق ایئر مارشل شاہد لطیف نے وضاحت کی کہ F-16 کی خریداری معاہدہ اُنہی کے دستخطوں سے ہوا اور اِس معاہدے میں امریکہ کی طرف سے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی ۔ مودی کے جھوٹ کا پردہ چاک ہونے پر ہی تواپوزیشن جماعتیں بھارتی عوام کو اُن کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ
بک رہا ہے جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خُدا کرے کوئی
(”ہوں” کو ”ہے” میں بدلنے پر روحِ غالب سے معذرت کے ساتھ)
پلوامہ حملے اور پاکستان میں دَراندازی تک تو امریکہ بھی بھارت کو ”ہَلا شیری” دیتا رہا لیکن جب پاکستانی شاہینوں نے مُنہ توڑ جواب دیتے ہوئے نہ صرف دَراندازی کا بھرپور جواب دیا بلکہ بھارت کے2 مِگ 21 بھی مار گرائے تو امریکہ کو ”شانتی” کا سبق یاد آگیا۔ احمق مودی کو امریکی دوستی پر بڑا ناز ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ امریکہ کسی بھی ایشیائی ملک کو طاقتور ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ ایشیاء میں افراتفری ہی اُس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو ہے۔ وہ اِس خوف میں مبتلاء ہے کہ اگر کسی وقت روس، چین اور بھارت سمیت ایشیائی ممالک کا بلاک بن گیا تو یہ نہ صرف دنیا کی آدھی آبادی پر مشتمل سب سے بڑا بلاک ہوگا بلکہ اقوامِ عالم کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی بن جائے گا جس سے امریکی چودھراہٹ مُنہ کے بَل آن گرے گی۔ اِسی لیے وہ نہ صرف پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی پیٹھ ٹھونکتا رہتا ہے بلکہ اُسے چین سے ”پَنگا” لینے پر بھی اُکساتا رہتا ہے۔ جنونی مودی کو خطِ غربت سے نیچے بسنے والے 80 کروڑ ہندوستانیوں کی فکر ہے نہ پرواہ۔ اُسے تو بہرحال مسندِ اقتدار تک پہنچنا ہے لیکن جس قوم کے ساتھ پنگا لے کر وہ حصولِ اقتدار کے لیے کوشاں ہے، اُس کا جزوِایمانی یہ کہ
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی اوریہ بھی تاریخی حقیقت کہ دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
البتہ امن کو بہرحال اوّلیت کہ ہمارے آقاۖ عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ دہشت گرد مودی یہ مت بھولے کہ دینِ بَرحق میں جہاں امن اور شانتی کا درس ہے، وہیں ”اپنے گھوڑے تیار رکھنے” کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِاعظم عمران خاں نے ”امن یا جنگ” میں سے کسی ایک کا انتخاب بھارت پر چھوڑ دیا۔ محترم وزیرِاعظم کی امن کی خواہش مستحسن مگر سامنے نریندر مودی جیسا جنگی جنوں میں مبتلاء درندہ ہے۔ اِس لیے ہمارا خیال ہے کہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
ہمیں دِلّی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا شوق ہے نہ بھارت کی بربادی کی آرزو لیکن جنونی مودی کے ”انداز” دیکھ کر ہمیں بہرحال اپنے ”گھوڑے” ہمہ وقت تیار رکھنے ہوںگے۔ آخر میں”بھارتی سورماؤں” کے لیے یہ پیغام کہ 65 کی جنگ میں بھی اُنہوں نے لاہور کے جم خانہ کلب میں ”جام لنڈھانے” کا خواب دیکھا اور مُنہ کی کھائی۔ اب بھی اگر اُنہوں نے ایسی کوئی حماقت کرنے کی کوشش کی تو ہماری بہادر افواج کو تیار پائیں گے ۔ ہم امن پسند ہیں لیکن مُنہ توڑ جواب دینا بھی ہماری سرشت میں شامل۔ یاد رہے کہ یہ طیاروں کی لڑائی دیکھنے کے لیے چھتوں پر چڑھ کر ”بو کاٹا، بوکاٹا”کے نعرے لگانے والی اور سرحدوں پر ڈنڈے لے کر پہنچ جانے والی قوم ہے۔ اِس قوم سے بھلا موت کے خوف سے لرزہ بَراندام کیا مقابلہ کر سکیں گے ۔ کہے دیتے ہیں کہ
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں