اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات میں مبعوث فرمایا تو اس کے طبعی میلان و رغبت بدی کو بھانپتے ہوئے اس کی تذکیر و تنبیہ کے لیے انبیاء بھی مبعوث کیے جو اس کو صراط مسقتیم پر گامزن رہنے کا سبق دیتے رہیں۔ اس امر کا اہتمام تاریخ کے مختلف مراحل میں انبیاء کے بعد صحابہ کرام ، تابعین اور علماء امت کرتے رہے ہیں کہ انسانوں میں موجود خامیاں کسی طرح کافور ہو جائیں۔ اسلامی ممالک نے اپنے ہاں جس اہتمام کے ساتھ اسلامی کتب خانے قائم کیے اور ان میں لاکھوں کتب جمع کی وہ اس پر دال ہیں ۔جن میں سے اکثر کتابیں فقہی موضوعات پر مشتمل ہیں۔
جیسے ہم دیکھتے ہیں کتب خانوں میں فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی،فقہ حنبلی،فقہ اوزعی اور اللیث بن سعد پر مشتمل کتب موجود ہیں۔فقہی کتب کا اس قدر گراں قدر ذخیرہ ملت اسلامیہ کی حاجت سے زیادہ موجود ہے۔معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیمی و ثقافتی ترقی اسلام کا صحیح فہم نہیں سمجھا سکتی۔ جو کوئی مسلمانوں کے پاس موجود کتب کے خزانے کو دیکھ کر یہ سمجھنے اور ماننے پر مجبور ہوجاتاہے کہ مسلمانوں سے زیادہ کوئی بھی مہذب اور شائستہ اور بااخلاق معاشرہ کوئی نہیں ہوسکتا لیکن معاملاتی زندگی میں ایک بدصورت شکل ظاہر ہوجاتی ہے۔جب کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ موبائل پر میسج بھیجتے ہیں تو ان میں اذکار و دعائیں اور درود شریف پر مشتمل پیغامات ایسے موصول ہوتے ہیں کہ جیسے ہم صحابہ کرام اور متقین لوگوں کے معاشرہ میں جی رہے ہیں۔لیکن جب وہ لوگ شاہرائوں پر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں تو معلوم پڑجاتاہے کہ یہ تو کفار قریش کے ہم سفر ہیں۔لوگوں کے مابین بھیجے گئے پیغامات اور عملی اخلاق میں بہت زیادہ تفاوت و فرق ہوتاہے ۔پیغامات تو متقی و پرہیزگاروں کے معلوم ہوتے ہیں جب کہ افعال و حرکات اور معاملات زندگانی فاسق و فاجر لوگوں کی طرح کے۔
عدالتوں کی ورق گردانی کی جائے تو بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ معاشرے میں اس قدر مشکلات و اختلافات کی جو کثرت موجود ہے اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے حقوق کو سلب کیے ہوئے ہیں۔اگر مظلوم طاقتور ہوجائے تو وہ بھی سرکشی و طغیانی پر اتر آئے اور لوگوں پر ظلم ڈھانا شروع کردے۔معاملات جو حقوق پر مبنی ہیں وہ انسانی معاشرے میں ناپید نظر آتے ہیں۔ظالم یہ جانتا ہے کہ وہ ظلم کررہاہے مگر وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچتا کہ حق دار کو اس کا حق اداکردے۔جو شخص کسی کو بآسانی دھوکہ دیکریا چوری کرکے وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس سے زیادہ عقل مندوہوشیار کوئی نہیں ہے۔جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ خاونداپنی بیوی کے حقوق کو سلب کرلیتاہے اور اگر اس کو طلاق دیتاہے تو اس کو بے یارومددگار روڈ پر پھینک دیتاہے،ایسے میں وہ دقیقہ بھر کے لئے بھی اللہ سے خوف نہیں کرتا۔
کسی تاجرکے ساتھ معاملہ کرتے وقت یہ محسوس ہوتاہے کہ تاجر آپ کی جیب میں سے پیسہ نکال لینے کا متمنی ہے کہ وہ اپنی چیزوں کی قیمت سے زیادہ کمانا چاہتاہے، خریدار اگرچہ نادارو غریب ہی کیوں نہ ہو کہ وہ تو مدد کا طالب ہوتاہے۔بعض لوگ ایسے بھی ہیں کم دام دیکر اس کی چیز زیادہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔یہ معاملہ صرف ناپ تول کے سلسلہ ممیں نہیں بلکہ زندگی کے تمام مراحل و معاملات میں دھوکہ دیتے نظر آتے ہیں۔یعنی جس جس کام میں پیسہ کا دخل ہے اسی میں زیادہ سے زیادہ دھوکہ دیا جاتاہے۔جبکہ قرآن کریم نے اس روایت کو ناپسند کرتے ہوئے اس کی مذمت ہی نہیں کی بلکہ ہلاکت کی وعید بھی سنائی ہے۔
مسلمانوں کی رہائش گاہیں ہوں یا ان کے سڑکیں اور پارکیںہرجگہ جابجا گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں جس سے تعفن و بدبو کے ساتھ وہ گندی مکھیاں اڑتی نظر آتی ہیں۔حضورۖ نے تو حکم دیا ہے کہ راستوں کو اس کاحق دیں یعنی ان کو صاف ستھرا رکھیں۔کیا گندگی کے ڈھیرمیں تبدیل کردینا یہ حق ہے راستوں کا؟!شاہرائوں پر گزرنے والوں کو دیکھیں گے کہ وہ کسی دوسرے راہ گزر کا احترام نہیں کرے گا۔ہرایک تیز رفتاری کے ساتھ گزرتا چلا جارہاہے بغیر اشارات کا خیال کیے۔بداخلاقی و بدتہذیبی کا طوفان بپا ہے۔بے ہنگم نظا م زندگی کا سامان ہمارے معاشرہ میں جابجا بکھرا پڑا ہے۔صفائی تو ہمارے نزدیک دین ہے اور رسول اللہۖ نے فرمایا صفائی ایمان کا آدھا حصہ ہے۔اس کے ساتھ ہی مسلم معاشرے میں بھیک مانگنے والوں کی کثرت ہوچکی ہے۔جھوٹ بول کر لوگوں کو لوٹتے نظر آنے والے لوگوں کی کثرت ہے مگر اس برائی کا کوئی خاتمہ نہیں کرنا چاہتا۔
اس جمعہ کو مسجد میں خطیب صاحب ماہ رجب المرجب کے فضائل بیان کررہے تھے۔ماہ رجب کے فضائل میں کوئی ایک بھی قول احادیث صحیحہ میں موجود نہیں ۔سمجھ نہیں آتی کہ لوگ ماہ رجب کا تو اس قدر احترام کرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں لوگوں کے لئے نفرت و حسد اور بغض بھرا ہواہے۔دنوں کے متبرک و مبارک ہونا کا کیا فائدہ جب لوگ ایک دوسرے پر ظلم ڈھا رہے ہوں اور ایک دوسرے کا حق کھاتے پھرتے ہوں۔مظالم کی اس قدر فراوانی و کثرت ہے جیسے گندگی کے ڈھیرپر مکھیاں منڈلارہی ہوتی ہیں۔ماہ رجب کے فضائل بیان کرنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں کہ لوگ خود کو اور اپنی گلیوں اور محلوں کو گندہ رکھتے ہوں۔
کیا فائدہ ہے اس بات کا کہ مہینوں اور دنوں کے فضائل پر تو نظر رکھی جائے مگر علاج و معالجہ میں بددیانتی کا بازار گرم ہے کہ جب سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو کہا جاتاہے باہر سے علاج کروالیں اور اگر کوئی دواء تشخیص کی جائے تو کہا جاتاہے کہ یہ بیرون ملک کی دوا لے لیں اس کی قیمت تو زیادہ ہے مگر معیار بھی اچھا ہے جبکہ ملکی دوائی کی قیمت کم اور تاثیر ناپید ۔ یہ حالت اور کیفیت ہے مسلمان ملک میں معاملات کی ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ مسلمان معاملاتی زندگی میں پرہیزگاری سے عاری و تہی دامن ہے۔جبکہ اسلام نے تو حکم دیا ہے کہ جب کوئی کام کرو تو اس میں دیانت داری اختیار کرلو۔مسلم معاشرے میں دھوکہ دہی اور فراڈ اور جعل سازی کی کثرت نمایا ں نظر آتی ہے جب کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا تھا کہ جس کسی نے دھوکہ دہی و فراڈ اور جعل سازی سے کام لیا وہ ہ میں سے نہیں۔مسلم معاشرے میں جھوٹ،دھوکہ دہی،مکروفریب اور بداخلاقی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔حضورۖ نے تو فرمایا ہے کہ تم میں سے وہ شخص قیامت کے روز میرے قریب ہوگا جو اخلاق میں زیادہ اچھا ہوگا۔
مسلمانوں نے عقیدہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ مغرب کی دو سنتیں ادا کرے کا اور اس کا اجرو ثواب کسی بھی صنعتی کام کو بہتری سے انجام دینے سے بہتر ہے، اسی طرح نفلی روزوں کو مقدم سمجھا جاتاہے کہ کسی مریض کا درست علاج کیا جائے۔موزے بنانیاور جوتے سینے کو ترجیح دی جاتی ہے نہ کہ دواساز کمپنی کا وجودعمل میں لایا جاتاہے۔ایسے بہت سے فرائض ہیں جن کو مسلم معاشرہ سنت سمجھ کر چھوڑدیتے ہیں جبکہ نوافل کو فرائض کا درجہ بھی دے دیتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام نے آسان و کم تر چیز کو بہت بڑا بناکر عوام کے سامنے پیش کردیا ہے ۔ جبکہ شریعت کی جانب متعین کردہ فرائض کی تبلیغ و اشاعت کا اہتمام نہیں کرتے۔گویا وہ علماء امت یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فرائض اتنے اہم نہیں ہیں۔
یہ ایسا انحطاط کا سیلاب بہتا چلاجارہاہے کہ اس کو معیوب سمجھنے کی بجائے اس کو مسلم معاشرے کی خوبی تصور کرلیا جاتاہے۔یا اس سے اپنے آپ کو دوسروں پر متیمز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مسلمان جو اہم امور ہیں ان کو ترک کردیتے ہیں ۔یہاں تک ہر غیر ضروری و غیر معمولی چیزوں کو مقدم کرلیتے ہیںیا اہم چیزوں کو کمزور ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔مسلم معاشرے کو مخلص علماء کی ضرورت ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت کی زبوں حالی سے شناسا ہوں اور اس کی تعمیر و ترقی کی خاطر پیش قدمی کرسکیں۔ملت اسلامیہ کی ضروریات کو بہتر طور پر سمجھتے ہوں اور امت کو بہت سارے خساروں سے نجات دلا سکیں۔سب سے بڑی کمزوری جو ملت اسلامیہ میں پھیل چکی ہے وہ یہ ہے کہ دین اسلام کی درست تفہیم سے معاشرے کو روشناس کرانا ضروری ہے۔