ویسے تو اللہ کی اللہ ہی جانے مگر میرا دل کہتا ہے عبدالغفور کو پچاس روپے کا پٹرول حرمین لے گیا وہ کیسے ؟پڑھئے اور دیکھئے صاحب جی میں آپ کے لئے کہ جائے نماز ٹوپی اور کھجوریں لایا ہوں۔عمرے پر گیا تھا آپ نے دعا کی اپیل کی تھی۔پہلے بتائے آنکھ کا کیا حال ہے جواب دیا اللہ کا کرم ہوا ہے۔یہ عبدالغفور ہے ہاکر ہے مجھے اخبارات دے کر جاتا ہے۔کوئی دو ماہ پہلے ملا تو کہنے لگا انجینئر صاحب اللہ کا کرم ہوا ہے میرا عمرے کا ٹکٹ نکلا ہے۔چودھری کامران گجر کے بھائی بابر گجر نے محفل میلاد کرائی تھی جس میں میرا ٹکٹ نکلا ہے ۔اب میں مدینے جائوں گا اب میں اللہ کا گھر دیکھوں گا۔میں نے ان گجر برادران کے لئے دعا کی جو اس قسم کے دینی فریضوں کے لئے خلق خدا کو شامل کرتے ہیں کامران چودھری رحمت علی فائونڈیشن کا بھی ذمہ دار ہے۔
آج شام کو گھنٹی بجی ملازم نے کہا ایک عبدالغفور نامی آدمی ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔سر پر سندھی ٹوپی پہنے پر نور چہرے کے ساتھ ایک شاپر میں یہ تحائف لئے عبدالغفور اوپر والی بیٹھک میں آیا۔مجھے بڑی خوشی ہوئی۔میں نے کرید کرید کر پوچھا کہ تم مکہ مکرمہ کہاں ٹھہرے تھے مدینہ کہاں قیام ہوا۔مجھے جب وہ سیدنا ابراہیم خلی روڈ کا بتا رہا تھا تو سارے منظر سامنے آ گئے یہیں کسی زمانے میں سابتکو کا اڈہ تھا کبوتر چوک بھی یہیں تھا نیچے جائیں تو محلہ مسفلہ آ جاتا ہے بن دائود کی مارکیٹ کے ساتھ سامنے چائے کی دکانیں ہیں مزید آگے جائیں تو پل آ جاتا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان ہوٹل۔مدینے کی گلیوں کا تذکرے ہوئے باب ٣٧ کے ساتھ آگے جا کر جنت البقیع کے پار انڈر گرائونڈ مارکیٹ کے اس پار جہاں راوی ہوٹل ہے ساتھ میں کھجوروں کا باغ ہے یہاں ٢٠١٠ میں جہانگیر صاحب کے گھر ٹھکانہ کیا جب اے سی ڈیلکو کے ریجینل مینجر کی حیثیت سے قیام تھا۔
عبدالغفور سے ان گلیوں کے بارے میں بہت سی باتیں کیں۔جہاں اس کی رہائیش تھی وہیں قریب البیک کی دکان بھی تھی جو اس مہنگائی کے دور میں بھی بھی بہترین کھانا پانچ سو روپے میں دے دیتا ہے وہی کھانا یہاں دو ہزار میں ملتا ہے۔نبی پاکۖ کے روضے مبارک کی جالیوں کی باتیں وہاں سے باہر نکلنا اور سامنے ہی جنت البقیع کی دیوار۔مدینہ منورہ میں برسوں گزارے ہیں پہلی بار ١٩٦٤ میں دوسری بار ١٩٩٠ میں اور تیسری بار ٢٠١٠ میں۔پہلی بار شارع سلطانہ پر محطہ الزغیبی کے پیچھے چھ منزلہ عمارت میں دوسری بار حرم کے باہر باب مجیدی سے سابتکو اسٹینڈ کے ساتھ جڑواں گلی میں رہائیش رہی اور تیسری بار باب العوالی میں کچھ وقت گزرا۔٥٤ میں الحسینی موٹرز میں ایک جوان مینجر کی حیثیت سے کوئی سال بھر گزارا یہ جنرل موٹرز کی ایجینسی تھی شاہد خاقان عباسی کے والد جناب خاقان عباسی کی عبدالعزیز حسینی کے ساتھ پارٹنر شپ تھی۔یہ کمپنی مفروشات العامر کے پاس تھی ساتھ میں ہی بیر عثمان تھا یہ وہ کنواں تھا جو ھضرت عثمان نے یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کیا تھا۔اس کمپنی میں گزارے گئے دن بڑے دلچسپ تھے۔
میری عمر کوئی تیس سال تھی اور اس عمر میں مدینہ پاک کے لوگوں کی خدمت کی۔الحسینی موٹرز شیخ عبدالعزیز الحسینی کی ضد کی نظر ہو گئی ایک بڑی مچھلی نے ایجینسی ان سے چھین لی یہ وہ دور تھا جب پی آئی اے کی ایجینسی بھی ان کے ہاتھ سے چھنی ۔شیخ صاحب پشاوری پٹھان تھے ضدی تھے۔ضدی لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔دوسری ملازمت ١٩٩٢ میں شارع مطار پر عمر ابوبکر بالبید کمپنی میں کی۔یہ بھی جنرل موٹرز کی ایجینسی تھی۔بالبید مشرق وسطی کی بڑی کمپنیوں میں شامل تھی جو چھ ہزار سالانہ کے قریب گاڑیاں بیچا کرتے تھے۔تیسری بار اے سی ڈیلکو کی ایجینسی میں بطور ریجینل مینیجر گیا تو مدینہ نورہ میں دو برانچیں بنائیں ایک شارع مطار پر اور دوسری شارع ملک عبدالعزیز پر بنائی۔مدینہ منورہ کے یاد گار دنوں پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔اللہ نے موقع دیا تو دو چار ایسے واقعات ضرور لکھوں گا جو میرے ایمان کی پختگی کا سبب بنے۔الحسینی میں بریگیڈئر تاج عباسی میرے جنرل مینجر تھے کمال کے بندے تھے۔مری سے تعلق تھا شاہد خاقان عباسی کے قریبی عزیز تھے۔اللہ عمر دراز کرے۔کوئی نوے کے پیٹے میں ہیں۔
جب عبدالغفور مل کر گیا تو اس کا چہرہ دھندلا سا تھا اب اللہ نے کرم کیا اسی نبی پاکۖ کے روضے کی جالیوں کے صدقے اب اچھا دیکھ رہا ہوں۔ اللہ پاک کسی کو محتاج نہ کرے ۔اکھیں گئیاں تے جہان گیا کا تجربہ کوئی دو چار ماہ رہا۔اللہ کا شکر ہے کہ اب تندرست ہوں۔عبدالغفور نے ملنے آیا تو یہی کہا کہ روضہ ء رسولۖ سے نور مانگ کے لانا۔وہ آزمائیش کے دن کبھی بھلائے نہیں جاتے جب نظر نہیں آیا بائیں آنکھ کی کمزوری کے ساتھ ایک کالم لکھا آقا میریاں اکھیاں مدینے وچ رہ گئیاں۔اس کالم کو لکھتے وقت جو رویا لگتا ایسے تھا کہ یعقوب علیہ السلام کی طرح رو رو کر جو بینائی بچی ہے اسے بھی کھو دوں گا۔مگر میرا اللہ ہے ناں جس نے الشاء ٹرسٹ ہسپتال کے ایک مسیحا نوید قریشی کے ہاتھوں سجاکھا کر دیا۔
عبدالغفور سے پوچھا بھائی یہ بتا تو مدینے کیسے گیا؟اس نے ایک بات بتائی تو میں اللہ کی کرم نوازی کا قائل تو پہلے ہی تھا مزید ہو گیا۔اس نے کہا میں موٹر سائیکل پر اخبار بیچتا ہوں میری یہ عادت ہے کہ میں پانی کی چھوٹی بوتل میں پٹرول رکھتا ہوں جہاں کہیں کوئی موٹر سائیکل ولا کھڑا ملتا تو اس کے پاس جا کر پوچھتا کہ بھائی کھڑے کیوں ہو ۔اکثر یہ کہتے پٹرول ختم ہو گیا ہے۔میں اسے بوتل سے پٹرول دے دیتا۔ایک بار ایک دودھ والا بڑا پریشان مل گیا اس کے پاس بہت دودھ تھا میں نے اسے پٹرول دیا اس نے کہا بھائی کتنے پیسے میں نے کہا کچھ نہیں بس دعا کر دینا۔عبدالغفور کہنے لگا اس نے گندے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہا جا بھائی اللہ تینوں مدینہ وخائے۔ اس نے مجھے مزید کہا کہ میرے دل میں یہ بات رچ گئی اور میں نے ٹھان لیا میرا اللہ مجھے مدینہ ضرور دکھائے گا۔
اس نے کہا میرے والدین عزیز سب کہتے تھے یار تو ہر جگہ میلاد کی محفل میں کیوں جاتا ہے یہ ضروری تو نہیں کہ تیرا انعام نکلے۔لیکن میرا یقین تھا اس دودھ والے کی دعا ضائع نہیں جائے گی اور میرا اللہ اپنے محبوب کا در ضرور دکھائے گا اور ایک دن وہی ہوا میرا انعام نکل آیا۔میں اس کے روحانی چہرے کو دیکھ رہا تھا سوچ رہا تھا کہ کتنا ایمان پختہ اور کس قدر یقین ہے اس نوجوان کو اپنے رب پر۔ قارئین ہن ان محفلوں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ان محفلوں میں شرکت کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ ساٹھ ہزار کے ٹکٹ کے لئے ہمیں اس میں شریک ہونا چاہئے لیکن یہ دیکھئے جو سارا دن اخبار بیچتا ہے سردی ہو یا گرمی بارش ہو یا سخت سردی وہ لوگوں تک اخبار پہنچاتا ہے۔
اللہ اس کی محنت رائیگاں نہیں جانے دی اپنے گھر بلایا اپنے پیارے محبوب کا روضہ ء مبارک دکھایا۔میں ایک شام اپنے گارڈن میں بیٹھا رو رہا تھا اور ذہن میں خیال ہے یہ کائینات یہ رنگ یہ رونقیں نظر سے ہیں کمزور ہو تو پھر بھی رونا اور چلی جائے تو رونا ہی رونا۔میرے گھر کے پیچھے ایک بڑا خوبصورت باغیچہ ہے جس میں نوید میرے بیٹے نے بڑے پیارے پودے لگائے ہیں پھول ہیں بوٹے ہیں۔پانی کی ٹینکی پر ٹائلیں لگوائی ہیں اور اس کی گرل بلکل عمران خان کے بنی گالا والی گرل کی مشابہت رکھتی ہیں اسی پر کرسی رکھی اور رویا اور سوچا میرے رب یہ سب کچھ تیرا ہے لیکن میری دنیا اندھیری نہ کرنا۔میری دعا میرے بچوں کی دعا اور عبدالغفور جیسے ان گنت لوگ جو زندگی میں میرے ساتھ رہے ان دعا تھی جو مجھے واپس لائی۔
اللہ کسی کے اچھے کام کا اجر دئے بغیر نہیں رہتا اس نے عبدالغفور کو نہیں بھلایا اس کی نیکی کو سرفرازا۔ اور جو بات میرے ذہن میں آئی ہے وہ عبدالغفور کا وہ نیک کام ہے جو اپنے موٹر سائیکل میں ایک بوتل پٹرول کی رکھتا ہے۔اللہ کی اس دھرتی پر اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس قسم کے کام کرتے ہیں صدقہ ء جاریہ ہے یہ جو عبداغفور کرتا ہے۔میرا پورا یقین ہے کہ صرف زیارت مدینہ ہی نہیں اللہ پاک ایسے لوگوں کے لئے جنت میں بھی ایک اعلی مکان دیں گے۔ہم ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو پس پشت نہ ڈالیں یہ اس زندگی کا حسن ہیں۔اللہ کے گھر کی زیارت اور روضہ ء رسولۖ پر حاضری کے لئے ایک چھوٹی بوتل پٹرول کیا کچھ کر سکتی ہے وہ آپ روزنامہ سماء کے ہاکر جو ایئر پورٹ سوسائٹی میں بغیر کسی تاخیر کے اور بغیر کسی کاپی کے ہضم کئے ہوئے مجھے پہنچاتا ہے۔میں بھی اس موٹر سائیکل والے دودھ فروش کی طرح عبدالغفور کے لئے دامن پھیلا کر دعا کرتا ہوں اللہ تجھے والدین سمیت حج کرائے۔ایک بوتل پٹرول جو پچاس روپے کی تھی اس میں کتنی طاقت ہے وہ کبھی عبدالغفور سے مل کر پوچھئے۔