لاہور (جیوڈیسک) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی وفد کے ہمراہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھپت جیل پہنچے، اس موقع پر جیل کے اطراف سیکیورٹی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ، جمیل سومرو، مصطفیٰ نواز کھوکھر، علی قاسم گیلانی اور سید حسن مرتضیٰ بھی پارٹی چیئرمین کے ہمراہ تھے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین کی سابق وزیراعظم سے ملاقات ایک گھنٹہ سے زائد تک جاری رہی جس میں بلاول نے نوازشریف سے ان کی خیریت دریافت کی۔
نوازشریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نوازشریف کی عیادت کے لیےکوٹ لکھپت جیل گیا، سیاسی اختلافات ہوتے ہیں،کچھ عرصے سے باہر تھا، میاں صاحب کی طبیعت کی خرابی کا پتا چلا۔
انہوں نے کہا کہ آج میرے لیے تاریخی دن ہے،اسی جیل میں شہید ذوالفقار بھٹو بھی قیدرہے، پارٹی کی قیادت اور کارکن بھی اسی جیل میں قید رہے ہیں۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے میثاق جمہوریت پر بات چیت ہوئی، زیادہ تربات چیت ان کی صحت سے متعلق ہوئی، نوازشریف اپنے اصولوں پر قائم ہیں ،لگتا نہیں کوئی ڈیل ہوئی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ نوازشریف کافی بیمار لگ رہے تھے، ان کو بہترین علاج فراہم کیا جائے، جس علاج کا مطالبہ نوازشریف کر رہے ہیں وہ ان کو فراہم کیا جائے، دل کے مریض کودباؤ میں رکھنا تشدد کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام قیدی کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں ہونی چاہیے، بیمار قیدی کو علاج معالجہ کو بہترین سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، پاکستان انسانی حقوق کی بات کررہا ہے اور دوسری طرف تین بار وزیراعظم رہنے والے بیمار میاں صاحب جیل میں ہیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ میاں صاحب سے سیاسی امور اور ملک کی موجودہ صورتحال پر بھی بات ہوئی، آج کی سیاسی مشکلات اور نظام میں کمزوریوں کا حل نکالا جانا چاہیے، میاں صاحب سے متعلق لوگ سازشیں کررہے ہیں، نہیں سمجھتا کہ کوئی ڈیل ہورہی ہے یا میاں صاحب سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہیں، میاں صاحب اپنے اصولوں پر کھڑے ہیں، وہ سمجھوتا کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے، میاں صاحب نے کہا کہ وہ نظریاتی ہیں اور نظریاتی سیاست کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا پارلیمنٹ میں حکومت پرت تعمیری تنقید کی، سمجھ نہیں آیا کہ اسد عمر میری تقریر پر تنقید کررہے تھے یا شاہ محمود قریشی کی تقریر پر، اگر اسد عمر انگریزی پر تنقید کررہے تھے تو مجھ سے زیادہ تو انگریزی شاہ محمود قریشی نے بولی، پڑھے لکھے جاہل وزیر اسد عمر کو دکھ ہورہا تھا کہ میں انگریزی میں بات کررہا ہوں، جس کمپنی میں اسد عمر کام کرتے تھے وہ کس زبان میں بات کرتے تھے؟
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اسد عمر نے کہا میں بھٹو کا نام کیوں استعمال کرتا ہوں، کوئی انہیں بتائے کہ میں بھٹو زرداری استعمال کرتا ہوں۔
پی پی چیئرمین نے وزیراعظم عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ عمران خان نے تونوٹی فکیشن کے ذریعے اپنے والد کا نام ہی کاٹ دیا، نہیں چاہوں گا کہ خان صاحب کو بھی یہ وقت دیکھنا پڑے اور ان کے بچوں کو ادھر ادھر بھاگنا پڑے۔
واضح رہےکہ بلاول بھٹو کی جانب سے ہفتے کو محکمہ داخلہ کو درخواست دی گئی تھی جس میں نوازشریف سے جیل میں ملاقات کی اجازت طلب کی گئی تھی۔