پاکستان ۔۔۔ شاد اور آباد رہے گا

Pakistan

Pakistan

تحریر : حفیظ خٹک

آج بھی وہ نہیں آیا ؟ جی نہیں آیا اور وہ ایسا پہلی بار نہیں کر رہا ہے ۔ اس سے پہلے بھی وہ یہ عمل کرتا رہا ہے۔ کیا کریں حارث بھائی وہ دراصل حساس بہت ہے۔ جب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے تو وہ بجائے کسی کو بتانے کے ازخود اس تکلیف و پریشانی کو سہتا ہے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد وہ محفل میں دوبارہ شامل ہو جاتا ہے اور اس وقت وہ اپنے ساتھ پیش آنے حالات و واقعات کا ذکر ہم سب سے کرتاہے ، جسے سن کر ہم سب دوستوں کو ساجد پر کچھ دیر کیلئے غصہ تو آتاہے لیکن اس لمحے اس کا اظہار نامناسب ہونے کے سبب خاموشی ہی اختیار کر لی جاتی ہے۔

ٹھیک ہے لیکن اس بار کچھ زیادہ دن نہیں ہوگئے ؟ یہ سوال گلی کے نکڑ پر قائم ہوٹل میں بیٹھے کئی دوستوں میں نئے وارد ہونے والے دوست اصغر نے پوچھا جس پر ساجد نے کہا کہ ہاں یا ر اصغر اس بار تو کئی دن ہوگئے ہیں اور وہ غائب ہیں۔ بلال نے کہا کہ کیوں نہ آج ہم سب اس کے گھر چل کے صورتحال کو دیکھیں اس طرح سے ہم ناصر سے بھی مل لینگے اور ان کے گھر والوں سے بھی ملاقات ہوجائیگی۔ خالد نے کہا کہ تجویز تو اچھی ہے لیکن یار ساجد کے والد صاحب سخت مزاج کے آدمی ہیں اور مجھے تو ان کے غصے سے ڈر ہی لگتا ہے۔

ارے ہاں یار وہ یاد ہے اک بار جب ہم سب اس کے گھر گئے تھے اور باہر سے آواز دی تھی جس پر ان کے والد باہر آئے اور ہمیں بلا کر کہا کہ یہ گھنٹی ، بجانے کیلئے ہوتی ہے اور آپ کسی کے گھر جائیں تو آوازیں نہ دیں بلکہ گھنٹی بجائیں ۔ سچی اس وقت تو ہم ڈر گئے تھے اور مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ ساجد کے والد ہماری مزید کلاس نہ لے لیں۔ رافع کی اس بات پر تو سبھی دوست ہنس دیئے ۔ اسی لمحے حارث نے کہا کہ انکل کی بات تو صحیح تھی اور ہے نا یار ، انہوں نے بالکل درست کہا تھا کہ آپ انسانوں میں رہتے ہیں، آبادیوں میں رہتے ہیں کسی جنگل میں نہیں رہتے ہیں جو آوازیں دے کر بلا کرہے ہیں ۔ آپ تمیز تہذیب اور اخلاقیات سیکھیں ، کسی کے گھر جائیں تو گھنٹی بجائیں اور جب دوازہ کھلے تو آپ اپنے آنے کا مقصد بتائیں۔ میں نے تو اس دن کے بعد سے آج تک کسی کو بھی اس کے گھر کے باہر کھڑے ہوکر آواز یں نہیں دیں ہیں۔

اس کے بعد سارے دوست اٹھے اور اپنے دوست ساجد کے گھر چل پڑے ۔ ساجد کا گھر کم ہی فاصلے پر تھا لہذا وہ سب اپنی خوش گپیوں میں جلد اس کے دروازے پر پہنچے اور بلال نے گھنٹی بجائی ۔ کچھ دیر بعد ساجد کے بھائی ماجد آئے اور ساجد کے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو وہ سب دوستوں کو گھر کے اندر لے گئے اور ساجد کے بارے میں بتایا کہ وہ بیمار تو نہیں ہے اور نہ ہی زیادہ مصروف ۔ بس ملک کے حالات پر غور کرتے کرتے اداس ہوگیا ہے بلکہ ہم تو انہیں کہتے ہیں کہ وہ زیادہ اداس ہوگیا ہے۔۔۔

ماجد ، اپنے بھائی کے دوستوں کو پانی پلاکر ساجد کو بلانے گئے جو اپنے کمرے میں سو رہا ہے ۔ حارث نے ماجد سے کہا کہ ہم انہی کے کمرے میں کیوں نہ چلیں ، جس پر سب اٹھے اور ساجد کے کمرے کی جانب چل پڑے ۔ کمرے میں ساجد بہت ساری کتابیں ، اخبارات بکھیرے چہرے پر قدرت اللہ شہاب کی اک کتاب شہاب نامہ کا مطالعہ کرتے کرتے شاید سو گئے تھے ۔ بلال نے اسے آواز دی جس پر وہ فوراہی اٹھ بیٹھا اور سب دوستوں کو اچانک اپنے کمرے میں دیکھ حیرت اور خوشی ہوئی وہ اٹھا منہ دھوکر واپس اپنے بستر پر بیٹھ گیا ۔ چھوٹے بھائی ماجد کو آواز دی اور کہا کہ چائے لے آئیں ۔ بلال نے منع کیا اور کہا کہ چائے تو ہم اسی ہوٹل پر پئیں گے اور آج تو اس کے ساتھ پراٹھے بھی کھائیں گے تیری طرف سے ، جس پر سبھی دوست ہنس پڑے۔ غضنفر نے پوچھا کہ ساجد اب بتاﺅ ہوا کیا ہے اور تم اتنے دنوں سے کیوں غائب ہو؟ ہوٹل پر نہیں آرہے اور نہ ہی کہیں باہر نظر آتے ہوآخر مسئلہ کیا ہے؟ بلال نے کچھ اسی طرز کا سوال پوچھا اور اس کے بعد دیگر نے بھی سوالات کی بوچھاڑ کی دی۔ ساجد کبھی ایک کو تو کھبی دوسرے کو دیکھتا رہے اور مسکرا تا رہے ۔ جو نہی وہ سر اٹھاتا ، سوالات کی بوچھاڑ دوبارہ شروع ہو جاتی۔

اسی اثناءمیں ماجد آئے اور سب کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بھی کہا کہ بہت اچھا لگ رہا ہے یہ سارے سوالات مجھ سمیت گھر والے کئی دنوں سے پوچھ رہے ہیں لیکن ہماری تو یہ سنتے ہی نہیں ۔ کل تو والدہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کے کمرے سے سارے اخبارات ،رسائل اور کتابیں اٹھا کر باہر پھینک دواگر اس نے یہی روش برقرار رکھی ۔ماجد کی اس بات پر ساجد نے غور سے ماجد کو دیکھا اور پھر سر جھکا لیا ۔ بلال نے اس موقع پر دیگر دوستوں سے کہا کہ جب آنٹی نے یہ کہہ دیا ہے تو کیوں نہ یہ فریضہ ابھی ہم سرانجام دے دیں۔ یکایک سب اٹھے اور نیکی میں دیر نہیں ہونی چاہئے کہہ کر سامان اٹھانے لگے ہی تھے کہ حارث نے ساجد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ اب گیند آپ کی کورٹ میں ہے اس لئے وقت کم اور مقابلہ نہایت ہی سخت ۔۔۔۔ ساجد نے اسے دیکھا دیگر پر بھی نگاہ ڈالی اور پھر کہا کہ میں بتاتا ہوں ، سب کچھ بتاتاہوں آپ لوگ بیٹھ جائیں اور میرے صرف ایک سوال کا جواب دیں۔ حارث نے کہا کہ ایک نہیں ہم دس کے جواب دینگے لیکن پہلے آپ یہ بتائیں گے کہ آپ کو تکلیف کیا ہے اور آپ کئی دنوںسے اس قدر خاموش کیوں ہیں؟ساجد نے اک بار پھر سب پر نگاہ ڈالی اور سر جھکا کر اک لمبا سانس لیا ۔ اسی دوران غضنفر نے کہا کہ ساجد اب وقت نہیں ہے اس لئے بتاﺅ، ورنہ کاروائی کیلئے سب تیار ہیں۔۔۔

ساجد نے کہا کہ پہلے آپ لوگ مجھے بتائیں کہ یہ اخلاص مروت و مہر و وفا کیا ہوتا ہے۔۔۔اور اس کے بعد اس سوال کا بھی جواب دیں کہ کیا واقعی یہ رسمی باتیں ہوتی ہیں اور آخری سوال نہیں اک خیال کہ سبھی اپنی مستی میں خودی کی خاطر جیتے ہیں ۔۔۔یہ درست ہے یا غلط؟؟؟ اب اس سوال کا آنا تھا کہ سبھی دوستوں کے چہروں پہ خاموشی چھا گئی۔ یہ سکوت کچھ دیر رہا تاہم اس دوران ساجد کے چہرے پر اتار و چڑھاﺅ کی کیفیات سبھی دوست محسوس کررہے تھے ۔ان دوستوں میں زیادہ عمر کے سمیر جو کہ اب تک خاموش تھے وہ گویا ہوئے ۔۔۔دیکھو ساجد بات یہ ہے کہ آپ میں حساسیت ہم سب میں سب سے زیادہ ہے لیکن اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مسائل و مصائب کو محسوس کرے تو زندگی کے دیگر معاملات کو پس پشت ڈال دے ۔ اللہ نے انسان کو وسائل دیئے ہیں ، مسائل انسان کی اپنی حماقتوں کے باعث رونما ہوتے ہیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ساجد نے سر اٹھا کر سمیر کی جانب دیکھا اور دیکھتا چلا گیا ، سمیرنے بھی اپنی گفتگو کو وہیں سے دوبارہ جوڑا اور بولنا شروع ہوگئے اب کی بار تو جو وہ بولے ، بس بولتے ہی چلے گئے ۔ ان کے دیگر دوست ان کے احترام میں کھبی بھی دوران گفتگوانہیں کسی بھی طرح سے تنگ نہ کرتے تھے ،نہ ہی انہیں کوئی سوال کرکے روکنے کی کوشش کرتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ ساجد ان کی دی گئی کتابوں کو ضرور پڑھتے تھے۔ سمیر نے ساجد سے کہا کہ انسان کی زندگی کا سفر اسکی دنیا میں آمد کے ساتھ شروع ہوتاہے اور جب وہ انتقال کرتا ہے تو اس کا یہ سفر اختتام پذیر ہوتاہے۔ اب انسان کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں ایک مثبت اور دوسرا منفی ۔ کبھی بھی ایک کاغذ بیک وقت سرخ و سفید نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ تو وہ سفید رنگ کا ہوگا یہ پھر سرخ رنگ ۔ اب اگر انکے رنگوں کو بدلنے کی کوشش کی گئی تو ان کی اپنی پہچان نہیں رہے گی۔ اس لئے آج ایک بار پھر آپ سے یہ کہتا ہوں کہ آپ اپنی حساسیت کو برقرار رکھئے تاہم مایوس مت ہوجایئے کیونکہ مایوسی آپ جیسے فرد کیلئے نہایت نقصان دہ ہے۔ اب میری باتوں کوایک جانب رکھو اور مجھے سمیت سب دوستوں کو بتاﺅ کہ کس بات نے آپ کو اس قدر مایوسی کے دائرے میں دھکیلنے کی کوشش کی تھی۔ اب ساجد نے اپنی آنکھوں کی نمی کو گرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ جب میرا یہ ملک بنا تو اس ملک کے بننے میں لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں۔ گھر بار چھوڑ کر وہاں سے یہاں آگئے اور یہیں رہنا شروع کیا ۔ ایک سال کے بعد اسی ملک کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا اور قیام کے بعد ان کی شہادت سے جاری ہونے والا یہ سفر تاحال جاری ہے۔

ملک پر طرح طرح کے حکمران آتے گئے اپنی موج مستی میں حکمرانی کرتے گئے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ میرا یہ وطن دولخت ہوگیا ، ادھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ لگا کر قربانیوں کی نت نئی داستانیں درج کی گئیں۔ اس دنیا کی سب بہادر میری فوج نے ہتھیار ڈالدیئے ۔۔۔ یہ جملہ ادا کرتے ہی ساجد کی آواز بھر آئی اور اس نے کمرے کی چھت کی جانب دیکھنا شروع کردیا ۔ سمیر نے ساجد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسی تسلی دی جس کے بعد ساجد نے دوبارہ بولنا شروع کردیا۔وہ بولتا رہا بولتا رہا اور ان انگنت مسلمانوں کی قربانیوں کی داستانیں سناتا گیا۔ اس نے ڈاکٹر قدیر کا بھی ذکر کیا اور اس دوران عبدالستار ایدھی کی بھی زندگی پر روشنی ڈالی۔ ماضی کے گمشدہ ستاروں کا ذکر بھی اس شکایت کے ساتھ کیا کہ ان لوگوں نے ملک کا نام روشن کیا لیکن آج ان کا نام تک کسی کو یاد نہیں ہے۔ اسکواش کے سابق عالمی چیمپئن جہانگیر خان، جان شیر خان کا بھی ذکر کیا ۔ پھر کرکٹ کا بھی ذکر آگیا ۔ ہاکی پر بھی یہ بات کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور ماضی میں اس کھیل پر ہماری اجارہ داری تھی لیکن اب ہاکی میں کہاں ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ، کیوں آخر کیوں ؟ خدمت کے کاموں میں ایدھی مرحوم کا بھی ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ ان کی نماز جنازہ تک میں شہر قائد کا اسٹیڈیم تک بھرا نہیں تھا۔ قدرے خاموشی کے بعد ساجد نے کہا کہ اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ جو بھی اس ملک کی خلوص دل سے خدمت کرتا آیا ہے ، ہماری حکومت اور عوام نے انہیں بھلا دیا ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ساجد نے متعدد نام لئے اور نہی ناموں میں خاص طور پر حافظ سعید کا نام لیا اور کہا کہ یہ صاحب اک ایسے بزرگ رہنما ہیں کہ جو آج تلک رنگ ، نسل و قوم سے بالاتر ہوکر انسانیت کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

Hafiz Saeed

Hafiz Saeed

آج یہ بزرگ پاکستانی جس پر ہمیں ان دیگر رہنماﺅں کی طرح کہ جنہوں نے وطن عزیز کیلئے بیش بہا قربانیاں دیں ان سب پر ہمیں ناز ہے اور یہ ناز رہے گا۔ اب اگر وہ حافظ سعید انسانیت کیلئے خدمت کے جذبے سے کام کرتاہے ، کشمیر سمیت جہاں بھی مظلوم انسان ہیں ان کے لئے آواز اٹھاتا ہے تو اس پر بھارت کو کیونکر تکلیف ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف میں آکر وہ ہماری حکومت پر دباﺅ کیونکر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ آخر کیوں ؟ اس حافظ سعید پر تو آج تلک وطن عزیز میں کوئی مقدمہ تک درج نہیں ہوا کیونکہ اس نے ہمیشہ ملک کے وقار کیلئے کام کیا ہے اور اس کے ساتھ چلنے والے بھی انہی کے نقش قدم پر گامزن ہیں تو پھر ہماری حکومت نے ان ہر انکی تحریک پر پابندی کیوں لگائی ہے؟بہرحال میں آپ تمام دوستوں کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ میری یہ کیفیت ان بزرگ رہنماﺅں کو دیکھ کر اور اپنے وطن کی افواج کی بہادری کو دیکھ کر کہ جن پر مجھے ہی آپ سمیت سب ہی کو فخر ہے اور یہ فخر رہے گا۔ ساجد نے اک لمبا سانس لیا اور کہا کہ جب تک آپ اور ہم جیسے عوام ہیں اور اپنے ملک کی ایسی افواج ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے رہنما ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمار املک شاد رہے آباد رہے گا۔۔۔ان شاءاللہ

تحریر : حفیظ خٹک