اسلام آباد (جیوڈیسک) العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کاٹنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر سماعت 19 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہو گی۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نواز شریف کی درخواست پر سماعت کرے گا جبکہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بینچ کی سربراہی کریں گے۔
تین رکنی بینچ میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہوں گے۔
اس سے قبل 25 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی اور ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی اور کہا تھا کہ نوازشریف کو علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں، یہ کیس غیر معمولی حالات کا نہیں بنتا، نواز شریف کے معاملے میں مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے نتیجے میں ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
اس کے بعد نواز شریف نے ضمانت کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
علاوہ ازیں سابق وزیراعظم نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں وفاق، نیب، جج احتساب عدالت اور سپرنٹنڈنٹ کوٹ لکھپت جیل کو فریق بنایا گیا ہے۔
خواجہ حارث نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ نے ضمانت کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا اور خود ہی فرض کرلیا کہ نوازشریف کو اسپتال میں علاج کی سہولیات میسر ہیں جب کہ درحقیقت نواز شریف کو درکار علاج بھی شروع نہیں ہوا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نوازشریف کو فوری علاج کی ضرورت ہے، اگر علاج نہ کیا گیا تو ان کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے لہٰذا ہائیکورٹ کا 25 فروری کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیا گیا اور عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔
8 ستمبر 2017 کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے۔
احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔
احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید اور فیلگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کیا۔