حکومتی اقدامات کے خلاف مدارس کی طرف سے مزاحمت کی دھمکی

Madrassas

Madrassas

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان بھر کے مدارس نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے مدارس کو اپنے قبضے میں لینے کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو وہ پی ٹی ائی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت پر اس وقت شدید بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ مدارس کالعدم تنظیموں کے لیے نظریاتی کارکن پیدا کرتے ہیں۔ ایسے ناقدین کا خیال ہے کہ مولانا مسعود اظہر، اورنگزیب فاروقی، ذکی الرحمٰن لکھوی، مولانا ضیاء الحق قاسمی، مولانا فضل الرحمن خلیل اور ٹی ٹی پی کے بے لاتعداد کارکنان سمیت ان مدارس نے کالعدم تنظیموں کے بے شمار رہنما اور کارکن پیدا کیے۔ تاہم مدارس ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اگر کوئی دہشت گردی میں ملوث ہے تو مدارس کی ملک گیر تنظیم وفاق المدارس کو اس کے حوالے سے آگاہ کیا جائے اور یہ کہ وہ خود حکومت کے ساتھ مل کر ایسے عناصر کے خلاف ایکشن لیں گے۔

اندازہ ہے کہ پاکستانی مدارس میں تقریباﹰ 35 لاکھ طالب علم پڑھتے ہیں اور خدشہ ہے کہ حکومت ان کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات کرتی ہے تو ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

ان پاکستانی مدارس نے حکومتی اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مدارس کی ملک گیر تنظیم وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا حنیف جالندھری نے ڈی ڈبلیوکو حکومتی اقدامات پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا: ’’حکومت نے نہ ہی ہم سے مشورہ کیا اور نہ ہماری رائے طلب کی اور اس کے بغیر ہی اس نے کئی مدارس کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اگر کوئی دہشت گردی میں ملوث ہے تو حکومت اس کے ٹھوس ثبوت ہمیں دے۔ ہم ان ثبوتوں کا تجزیہ کریں گے اور پھر حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے لیکن اس طرح کے اندھا دھند اقدامات کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کریں گے اور ہمارے پاس مزاحمت کا راستہ بھی ہے، جس کی ہمیں قانون اور آئین دونوں اجازت دیتے ہیں۔‘‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے ڈوئچے ویلے کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت مدارس کے طلبہ کو ہراساں کر رہی ہے اور وہ مدارس کی انتظامیہ کے لیے غیر ضروری طور پر مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ اس عالم کا کہنا تھا کے حکومتی اقدامات کی وجہ سے طلبہ اور اساتذہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اگر اس سلسلے کو روکا نہیں گیا تو یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

جہاں ان کاروائیوں پر مدارس کے لوگ پریشان ہیں وہیں سیکولر سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ کیونکہ پی ٹی آئی ایک رجعت پسند جماعت ہے اور اس ملک کے مذہبی طبقات بھی رجعت پسند ہیں اس لیے عمران خان کی جماعت ان کے خلاف کبھی اقدامات نہیں اٹھائے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی اور یہ سب مصنوعی اقدامات ہیں۔ غالباﹰ یہ سب کچھ مغرب اور امریکا کو دکھانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ دیکھیں اگر ہم مولویوں کے خلاف اقدامات کریں گے تو یہ ہوگا۔ مولوی اور پی ٹی آئی دونوں ہی رجعت پسند طبقات ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت کبھی ان کے خلاف اقدامات نہیں کرے گی۔ میرے خیال میں تو مدرسوں کے خلاف اقدامات کرنے کے بجائے حکومت کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کو پیرا ملٹری فورس میں بھرتی کرنے کی تیاری کر رہی ہے جو ملک کے لیے بہت خطرناک ہوگا کیونکہ اس طرح کے لوگ ایک مخصوص نظریہ رکھتے ہیں اور وہ اپنے نظریات کی تبلیغ کریں گے جس سے معاشرے میں اور انتشار پھیلے گا۔‘‘

اندازوں کے مطابق پاکستان میں مدارس کی کُل تعداد تقریباﹰ 80 ہزار بنتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں تقریبا 36 ہزار رجسٹرڈ مدارس ہیں جن میں سے 18 ہزار کے قریب دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ چھ ہزار سے زیادہ بریلوی مکتبہ فکر سے اور باقی اہل حدیث اور اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔

ناقدین کا خیال ہے کہ یہ تعداد صرف رجسٹرڈ مدرسوں کی ہے اور اگر رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدارس دونوں کا اندازہ لگایا جائے تو ملک میں مدرسوں کی کُل تعداد تقریباﹰ 80 ہزار بنتی ہے جن میں تقریباﹰ 35 لاکھ طالب علم پڑھتے ہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کو خدشہ ہے کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر حکومت ان کے خلاف اقدامات کرتی ہے تو ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔