ربِ کائنات اللہ رب العزت کے حکم سے مردکی پسلی سے پیدا، عورتوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں 8 مارچ کو عورت آزادی مارچ منایا ، مگر آج پوری دنیا میں صرف چرچے پاکستان میں منائے گئے، عورت آزادی مارچ کے ہی کئے جارہے ہیں۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس روز خاص طور پر پاکستان کے چند بڑے چھوٹے شہروں میں مٹھی بھر آزاد خیال ، لبرل ازم کی دلدادہ پردے سے خائف اور مدرپدر آزاد خواتین نے حقوق نسواں کی آڑ لے کر جس طرح عورت آزادی مارچ کا ڈرامہ رچا یا،دراصل اِس کا حقوق نسواں سے تو کوسوں دور کا بھی واسطہ کہیں سے نظر نہیں آیا۔البتہ ،اِس مارچ میں سِوائے فحاشی اورعریانیت پھیلا نے والے پلے کارڈز اور پوسٹرز کے کچھ نہیں تھا۔یقینا معاشرے کی چند آزاد خیال خواتین نے آٹھ مارچ کو اپنی اِس قسم کی گھناو ¿نی حرکت اور عمل سے کروڑوں پاکستانی پردہ نشین معصوم گھریلو خواتین کو معاشرے میں بغاوت کے لئے سوشل کے ذریعے بہت اُکساناچاہامگر ناکام رہیں۔
دراصل اِن بے پردہ جینززدہ ، ہاف شرٹ زیب تن خواتین کے ہاتھوں آزادی نسواں کی آڑ میں عورت نے عورت کا استحصال کیا ہے۔ آج جس کی مرد تو مرد عورتیں بھی کھل کر مخالفت کررہی ہیں۔ جنہوں نے مل کر حکومت سے بھی سختی سے التجا کرتے ہوئے، اِسے متنبہ بھی کردیاہے کہ آئندہ کسی بھی آزادخیال خاتون یا این جی اوز کو حقوق نسواں کی بنیاد پر اِس قسم کے عورت آزادی مارچ یا مُلک میں ایسے کسی بھی فحاشی پھیلانے والے پروگرام کے انعقاد کی ہرگزاجازت نہ دی جائے ۔جس سے عورتوں کے ہاتھوں عورتوں کا استحصال کیا جائے ۔جیسا کہ آٹھ مارچ کو عورت آزادی مارچ میں کیا گیاہے ۔
عورت آزادی مارچ میں شامل ہر عمر کی خواتین نے جیسے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا یہ سب سوشل میڈیا پر موجود ہے،جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں جس قسم کے پلے کارڈز اور پوشٹرزتھام رکھے تھے، جنہیں دیکھ کر وہاں موجود غیرت مند مردوں اور کئی شریف گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے سر اُن پر درج نعروں، جملوں اور بنا ئی گئیں، تصاویر دیکھ کر شرم سے جھک گئے ۔
مگر افسوس ہے کہ جن عورتوں اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں یہ سب کچھ تھا۔ اِن کی آنکھوں میں شرم نام کی کو ئی چیز نظر نہیں آئی،پاکستان جیسے مسلم ملک میں جہاں دین اسلام اور دیگر مذاہب کے ماننے والے مرد و خواتین کی بڑی تعداد رہتی ہے، جو اپنے مذہب اور معاشرے کی پاسداری کرتے ہوئے پردے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
اِس مُلک میں چند مٹھی بھر خواتین، عورت آزادی مار چ کی آڑ میں عورت کے کس قسم کے حقوق اور کیسی آزادی کی مہم چلاتی نظرآئیں؟ یہ عورت آزادی مارچ میں شریک مظاہرین کے پلے کارڈز اور پوسٹرز سے اندازہ ہوا۔
سارے منظر میں تشویش ناک بات یہ رہی ہے کہ حقوق نسواں کی بنیاد پر عورت آزادی مارچ میں شامل مظاہرین نے جس قسم کے نعروں اور جملوں پر مبنی پلے کارڈز اور پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے اِن پر درج کچھ ایسے، نعرے اور جملے تھے آ پ بھی جنہیں پڑھ کرسمجھ کر خود اندازہ کریں کہ یہ سب کیا تھا؟ آزاد خیال چند مٹھی بھر عورتوں کی غیار کی فنڈنگ سے معصوم عورتوں سے حقوق نسواں کی تحریک کی آڑ میں شرارت تھی،اور مُلک کی معصوم عورتوں کو بے پردہ کرکے اپنے مردوں کے سامنے کھڑا کرکے ٹکراو ¿ کے لئے جنگی محاذ کھولنامقصد تھا عورت آزادی مارچ میں شامل اکثر نعرے اور جملے ایسے تھے ’ ’ اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو،یہ چاردیواری یہ چادر،گلی سڑی لاش کو مبارک ،میں آوارہ میں بدچلن، لو، بیٹھ گئی صحیح سے،آو ¿کھانا ساتھ بنائیں، اپنی روٹی خود بناو ¿،مجھے کیا معلوم تمہارا کہاں ہے؟ NOبچہ دانی NO OPINION، NAACH MERI BULBUL TUJHI KOI KUCH NAHI KAHE GA، ہم بے شرم ہی صحیح،اپنا ٹائم آگیا،MY PERIODIS NOT ALUXURY STOP TAXING OUR PADS(پیڈ کی تصاویر کے ساتھ پلے کارڈزیہ انگریزی میں درج تھا)، تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے،عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے،میری SHIRTنہیں ، تمہاری سوچ چھوٹی ہے ،DIVORCED HAPPY،MERI SHAADI NAHI AZAADI KI FIRK KARO!!،شادی کے علاوہ اور بہت کام ہیں!،میں OVARY ACTنہ کروں تو کیا کروں؟،AAJ WAQAI MAA BEHN EK HO RAHI HAI،عورت راج زندہ باد!NAZAR TERI GANDI AUR PARDAMEIN KEROUN،میں کھانا گرم کردوںگی، بستر خود گرم کرلو،نرکا بچہ کس کی کوکھ سے آیا؟؟؟مجھے ٹائر بدلنا آتا ہے!اکیلی آوارہ آزاد،DICK PICS APNAY PAAS RAKHO،کھیرے سستے کرو ، صابن مہنگا کرو“ ایسے اور بہت کچھ فحاش نعرے اور جملے تھے ، جواِس قدر فحش اور عریانیت کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ جنہیں کالم میں درج نہیں کیا جاسکتا ہے، مگر جتنے لکھ سکھا یہ بھی کالم کے اصول کے خلاف ہے مگر معذرت کے ساتھ لکھنا پڑاہے اِس روز آزاد خیال عورتوں نے عورت آزادی مارچ کا سہارا لے کر ہاتھوں میں گندے پوسٹرز اتھامے رکھا ، آج یوں آزاد خیال چند مٹھی بھر عورتوں نے مُلک بھر میں اپنی مدر پدر آزادی کا واویلا کرکے ایک بھونچال پید ا کردیاہے۔
یہ کیسازمانہ آگیاہے کہ آج مرد کی پسلی سے پیدا عورتوں میں سے( چند مٹھی بھر عورتیں)مردوں کے ہی سر چڑھ کر کہہ رہی ہیں کہ نرکا بچہ کس کی کوکھ سے پیدا ہواہے؟ یہ سوال کرنے والی عورتوں کو پہلے تو اپنی پیدائش کے بارے میں پوچھنا چاہئے کہ ربِ کائنات نے اِن کی پیدائش کس طرح کی ہے؟ پھر یہ مٹھی بھر آزاد خیال مرد کی احسان فراموش عورتیں مرد سے اپنی آزادی مانگیں،پھریہ عورتیں مردوں کے سامنے اپنے وجود کا سوال اُٹھائیں، آج کے مسلم معاشرے میں مردوں نے عورت کو جتنی آزادی اور عزت دی ہے اِس سے زیادہ دین اسلام نے عورت کو عزت دی ہے۔ مگر آج کی عورت کو اپنی ملنے والی عزت اور مذہبی آزادی کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں ہے، اگر اِسے اپنی چار دیواری میں ملنے والی عزت اور اسلامی اصولوں کے مطابق ملنے والی مذہبی آزادی کے بارے میں کچھ بھی معلوم ہوتا تو یہ کبھی بھی مردوں سے یورپی معاشرے کی عورتوں والی آزادی کی طرز کی آزادی، فحاشی اور عریانیت سے بھرے پلے کارڈز اور پوسٹرز ہاتھوں میں اُٹھائے کبھی یوں اپنی آزادی اور اپنی بے پردگی کے لئے ریلی نہ نکالتی،تعجب ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی چند آزاد خیال عورتیں پردے سے اِس قدر خائف ہیں کہ یہ یورپی طرز کی عورت کی طرح بے پردہ رہنا اور اپنے جسم کی کھلے عام نمائش کرنا اپنی آزادی سمجھ رہی ہیں۔ تو اِنہیں پتہ ہونا چاہئے کہ اللہ نے بھی ہر چاہی اور پسند کی جانے والی شے کو پردے میں ہی رکھاہے۔ جیسے کیلا اور کینو بھی چھلکے میں ہوتے ہیں۔
آج اگر یہ بغیر چھلکے بازار میں فروخت کے لئے پیش کئے جائیں، تو کوئی اِنہیں نہیں خریدے گا ۔ ایسے ہی مرد کی پسلی سے پیداعورت مرد کے لئے قابل احترام اور لائق چاہت ہے۔ جِسے مرددوسروں سے چھپا کر پردے میں رکھنا چاہتاہے۔ اور عورت کے لئے پردہ کرنا حکمِ رب ِ کائنات اللہ رب العزت بھی ہے، عورت جتنی پردے میں رہی گی اِس کی عزت اور اِس کا احترام اور تقدس اُتناہی برقرار رہے گا ۔آج یور پ کی آزاد خیال عورت کو پردے میں چھپے عورت کے وجود کی قدر کا اندازہ ہورہاہے۔ تو یہ وہاں اپنے مردوںسے اپنے تقدس کی جنگ لڑرہی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے یہاں کی چند آزاد خیال خواتین پردے سے چھٹکارہ پانے اور یورپی وومن کی طرز کی مدر پدر آزاد زندگی گزارنے کے لئے تحاریک چلارہی ہیں۔
جبکہ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ عورت کا اپنے شوہر کی خدمت کرنا ثواب میں صدقہ وخیرات کے درجے میں ہے،مسلم شریف میں ہے کہ ”ساری دنیا ایک متاع زندگی ہے اور دنیاکی بہترین متاع نیک عورت ہے، جو عورت اِس حال میں انتقال کرے کہ اِس کا شوہراِس سے راضی اور خوش ہوتووہ عورت جتنی ہے،،جو عورت بغیر کسی عذر معقول کے شوہر سے طلاق مانگے اِس پر جنت کی خوشبو حرام ہے “حضرت عیسی ٰالسلام فرماتے ہیں کہ ”جس کسی نے بُری خواہش سے عورت پر نگاہ ڈالی وہ اپنے د ل میں اِس سے زنا کرچکا“اِسی طرح اہلِ علم و دانش کہتے ہیں کہ”اچھی اور باپردہ اور باعصمت بیوی سے بڑھ کر کوئی رحمت اورشوہر سے آزادی اور برابری کا سوال کرنے والی بُری بیوی سے بڑھ کرکوئی زحمت نہیں ہے۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com