کمزور اور متزلزل فیصلوں کے باعث

Jamaat e Islami

Jamaat e Islami

تحریر : اے آر طارق

جماعت اسلامی جو کہ کبھی ملکی سیاسی افق پر چھائی ہوئی نظر آتی تھی ،اِس کے فیصلے دوررس نتائج کے حامل ہوتے تھے، ملکی سیاست میں اِس کا ایک وقار اور منفرد مقام ہوتا تھا ،ہر جگہ اِس کا نام ایک بہترین نظم کی حامل جماعت کے طور پر ہوتا تھا،آج ڈانواں ڈول ہے،آج تو سیاسی افق پر چمکتی دکھائی دیتی ہے اورنہ ہی دُوررس نتائج کے حامل فیصلے کرپاتی ہے اور نہ ہی پہلے سا رعب و دبدبہ وشان والا بہترین نظم ہے اور نہ ہی وہ پہلا سا والا اندازِ حکمرانی ہے ،ایک وقار اور منفرد مقام تو کبھی اِدھر ،کبھی اُدھر ،کبھی ہاں ،کبھی ناں،کبھی ایک فیصلہ تو کبھی دوسرا موقف ،ایک بات ،ایک موقف نہ رکھنے اور ڈانواں ڈول متزلزل پالیسیوں،غلط فیصلوں کے باعث کبھی ایک جماعت،کبھی دوسری جماعت کے ساتھ چلنے اور ٹھیک طرح سے پنپنے کی نہ وجہ سے اور کبھی کسی جماعت کے ساتھ چلنے کا غلط فیصلہ کرکے سیاسی طور پر بہت ہی پیچھے چلی گئی ہے،جس کی وجہ اس جماعت کے دماغوں کا بروقت صحیح اور درست فیصلہ نہ کرسکنے کی وجہ ہے۔

نہیں چلنا تو اُن کے ساتھ بھی نہیں چلنا،جن کے ساتھ مل کر سیاست کی راہداریوں پر چمکتے دکھائی دیتے تھے اور چلنا ہے تو اُن کے ساتھ بھی چل پڑنا ہے جن کی کوئی کل سیدھی نہیں،جن کا منتطع نظر صرف اقتدار ہے نہ کہ ملکی خدمت، جن کے ساتھ اِن کا چلنا بنتا ہی نہیں،فیصلے تو کر لیتے مگر ارکان کی رائے کا احترام پہلے جیسا نہیں،ایسے فیصلے کرتے کہ خود تو مخمصے کا شکار ہے ہی ،کارکنان کو بھی تذبذب میں مبتلا کردیتے،اکثر ایسا ہوتا کہ مرکزی قائد ین کا فیصلہ کوئی اور ہوتا اور کارکنان کچھ اور چاہتے،جس کے باعث معاملات کمزور اور خراب ہوتے چلے گئے،یہاں تک کہ متنازعہ فیصلوں،متنازعہ بیانات کے باعث تقسیم ہوتے اور تبصرہ و تنقید کرتے بھی دکھائی دیتے،مگر کچھ کر نہ پاتے،جس کے نتیجے میں کوئی کسی سمت نکل جاتا اور کوئی کسی اطراف،یہ وہ صورتحال ہے جس نے سیاسی و اخلاقی طور پر جماعت کا ’’تیا پانچہ‘‘ کردیا ہے،بجائے اِس کے کہ ابھرتی،صفحہ ہستی سے بکھرتی نظر آرہی ہے، ناعاقبت اندیش فیصلوں، اپنے سیاسی حلیفوں سے علیحدگی کی پالیسی اپنا کر برُی طرح فلاپ ہوئی پڑی ہے،جہاں سے چلی تھی ،وہیں ہی کھڑی نظر آرہی ہے،ملکی تعمیرو ترقی کے حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی اپنانے اور حکمت عملی اختیار کرنے سے یکسر خالی نظر آتی ہے۔محترم قاضی حسین احمدؒ کی وفات کے بعد تو بالکل بکھر کے رہ گئی ہے۔

رہی سہی کسر منور حسن نے پوری کردی اور سراج الحق سے ویسے ہی سنبھالی نہیں جا رہی ،نیک نام ضرور ہیں مگر ابواعلیٰ مودودیؒ اور قاضی حسین احمدؒ کی طرح معاملہ فہم نہیں،ٹھوس موقف اور مثبت پالیسی کا فقدان دیکھنے کو ملتا،جس نے بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا ،نہ اگا دیکھا ،نہ پیچھا،چل دئیے اور نہ ہی ارکان کی رائے کو اہمیت،بس وہاں موجود چند بابوں نے جو کہہ دیا، پر ہی فیصلہ دے دیا،جس کی وجہ سے بہت سے افراد اورارکان توجماعت کو ویسے ہی چھوڑ گئے یا رخصت پر چلے گئے یا استعفیٰ دے دیا،جن کے بل بوتے پر جماعت کے تابوت میں ’’میں زندہ ہوں‘‘ کا نعرہ لگانے کی ہمت وسکت تھی، یہ ہی وہ لوگ تھے جو جماعت کا اثاثہ تھے ،جماعت کی طاقت تھی،جو فرعونوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے تھے ،جنہوں نے اپنی جوانیاں اِس کو اٹھانے میں لگا دی۔

،جنہوں نے اِس کی اٹھان کے لیے احتجاجی ریلیوں میں سینکڑوں میل پیدل چل کر،قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کی، ماریں کھائیں،سڑکوں،گلیوں،بازاروں میں اپنے سروں پر پڑنے والی خاک کا ذرا برابر دھیان نہ کیا،اِس کے لیے اپنا تن من سب کچھ قربان کیا،اِس کی مضبوطی وپائیداری کے لیے اپنا خاص الخاص قیمتی وقت ،صلاحیتوں ،جوانیوں کو صرف کیا،آج جماعت اسلامی کا حصہ نہیں،اگر ہیں بھی تو کہیں گمشدہ ہیں،جن کو تلاشنا جماعت نے کب کا چھوڑ دیا،متزلزل پالیسوں،غلط وکمزورفیصلوں نے بہت سے ارکان کو اُچک لیا،کچھ حالات کے خونی دھاروں میں گم ہوگئے،جو رہ گئے وہ بھی چھوڑنے کی طرف گامزن اور جس طرح کے فیصلے جماعت لیتی ہے،ایسے ہی رزلٹ آیا کرتے ہیں،آج قاضی حسین احمد ؒ جیسے مرد قلندر بہت یاد آتے ہیں جو ظالموں کے خلاف ننگی تلوار ہوا کرتے تھے۔

اِن کی وفات کے بعد جماعت کا کوئی پرسان حال نہیں،لیڈر تو بہت آئے مگر کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو جماعت کو صحیح معنوں میں اُٹھا سکے،چلا سکے،اِس کو اُس کے ٹھیک مقام پر لاسکے،سب سے بڑھ کر بکھرے ہوؤں کو محبت وپیار سے جوڑ سکے ، اِن کو جماعت کی چھاؤں میں واپس لاسکے،اب تو ایسا لگتا ہے کہ شاید جماعت اسلامی سیاسی طور پر اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے،کیونکہ جس طرح کی صورتحال ہے ،وہ سیاسی طور پر جماعت اسلامی کے حق میں دور دور تک اب کئی سالوں تک موافق نظر نہیں آرہی،کیا کوئی ہے جو جماعت کو اُٹھا سکے اور اِس کو اِس کا کھویا ہوا مقام و مرتبہ پھر سے واپس دلاسکے؟بروقت اور درست فیصلوں میں ہی اب اِس کی بقاء ہے ورنہ جو حال اِس کااب کے بار ہے، کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں،سب کے سامنے ہے،جماعت کسی سے ہاتھ کھینچ کر بھی کچھ پا نہ سکی اور کسی سے ہاتھ ملا کر بھی سب کچھ سے محروم ہے،صرف اور صرف اپنے کمزور اور متزلزل فیصلوں کے باعث۔

A R Tariq

A R Tariq

تحریر : اے آر طارق