وائٹ ہاؤس (جیوڈیسک) صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیوزی لینڈ کے شہر کرسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشتگرد جملے کے حوالے سے جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ” یہ ایک انتہائی بری حرکت ہے۔”
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران اخباری نمائندوں کے سوال کرنے پر نیوزی لینڈ کے دہشت گرد حملے کے حوالے سے اپنے جائزے پیش کیے۔
انہوں نے” سفید فام نسل پرستی” بیانات میں اضافے کے ساتھ اس حملے کا تعلق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا میں سمجھتا ہوں کہ نہیں، یہ انتہائی سنگین مسائل سے دوچار ایک مختصر گروپ کی کارستانی ہے۔اگر آپ نیوزی لینڈ کے حالیہ واقعات کا جائزہ لیں تو اسی بات کا احتمال قوی دکھائی دیتا ہے۔ تاہم مجھے اس وقت اس معاملے کے حقائق سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہے۔
حملہ آوروں کی طرف سے تحریر کردہ مینی فیسٹو کا فی الحال مطالعہ نہ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے اس واقعے کے انتہائی گندی حرکت ہونے کا کہنے پرہی اکتفا کیا تو ان کی جانب سے ” دہشت گردی” کا لفظ استعمال نہ کرنا باعثِ توجہ تھا۔
واضح رہے کہ حملے کے حوالے سے ابتدائی اعلان میں ٹرمپ نے”مسلمان” کا لفظ استعمال نہ کیا اور محض اظہار تعزیت کیا تھا۔
دوسری جانب امریکی سیاستدانوں نے نیوزی لینڈ کے دہشت گردی کے حوالے سے ٹوئٹر پیغامات کے ساتھ اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
امریکی کانگریس کی ہیڈ اسکارف پہننے والی پہلی مسلمان خاتون رکن الہان عمر نے اپنے پیغام میں “بے شک ہم اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں اور بلاشبہ اسی کی جانب لوٹیں گے ” آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم انتہائی خوفناک خبر کے ساتھ بیدار ہوئے، میں آج مسلمان طبقے کے ہمراہ سوگ منا رہی ہوں اور اب ان کے کہیں زیادہ قریب ہوں۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے بھی اس حملے کے حوالے سے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ مشل اور میں نیوزی لینڈ کے عوام سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں، ہم اپ کے اور پوری مسلم امہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، ہمیں ہر طرح کی نفرت کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔”
امریکہ میں 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے امیدوار منتخب ہونے کے لئے سرگرداں شخصیات میں سے ورمونٹ کے سینیٹر ڈیموکریٹ بیرنی سینڈرز، کیلیفورنیا کے سینیٹر کمالا حارث، نیوجرسی کے سینیٹر کوری بوکر، مینیسوٹا کی سینیٹرایمی کلو بچر جان ڈیلینے نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئےاہنے اپنے رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔