نیوزی لینڈ کی مسجد النور پر فائرنگ کا واقعہ فیس بک پر براہ راست چلایا گیا، جبکہ اس کا اعلان 8chan پر پہلے ہی کیا جا چکا تھا، یوٹیوب پر یہ دوبارہ پوسٹ ہوا اور ریڈٹ پر اس کے بارے گفتگو ہوتی رہی مگر اس سے پہلے کوئی ٹیکنالوجی کمپنی ردعمل ظاہر کرتی، یہ پوری دنیا میں نشر ہو چکا تھا- سفید فام تعصب اور اسلاموفوبیا کا یہ بد ترین مظاہرہ ٹیکنالوجی، مغربی معاشرے اور حکمرانوں کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے- 1990 کے بعد نیوزی لینڈ میں ہونے والا یہ بدترین قتل عام ہے- گو کہ پوری دنیا میں اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے لیکن کیا صرف بیانات دے دینا کافی ہو گا؟ اس سے پہلے بھی مغرب میں سفید فام نسلی تعصب مختلف صورتوں میں دکھائی دیتا رہا ہے لیکن مغربی حکمرانوں نے اس سفید فام دہشت گردی کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے-
اسلام اور اس کے پیروکاروں سے بے مقصد خوف اور نفرت اسلامو فوبیا کہلاتا ہے- مغربی معاشرے میں اسلاموفوبیا سے مراد وہ نفرت ہے، جو وہاں کی سوسائٹی مسلمانوں کے لیے محسوس کرتی ہے- ستمبر 2011 کے بعد جنگل کی آگ کی مانند پوری دنیا میں پھیل جانے والی یہ اصطلاح، سب سے پہلے مشہور مصور الفانسے ڈینٹ اور ایک الجیریا کے مفکر سلیمان بن ابراھیم نے 1918 میں فرانسیسی میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں “Islamophobie” کے لفظ سے متعارف کروائی تھی- لیکن بعض محققین کے نزدیک اس لفظ کے معنی وہ نہ تھےجو جدید دور میں اسلاموفوبیا کے لکھے اور سمجھے جاتے ہیں-آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق باقاعدہ طور پر لفظ اسلاموفوبیا کا استعمال 1923 میں “دی جرنل آف تھیولوجیکل سٹڈیز” کے ایک مضمون میں ہوا- 1997 میں اسے اخبارات اور دیگر میڈیائی طبقوں نے عام استعمال کرنا شروع کر دیا تھا-
کہا جاتا ہے کہ اسلاموفوبیا صلیبی جنگوں کے دوران وجود میں آیا جب مسلمان اور یورپ کے عیسائی آمنے سامنے ہوئے- شاہ فلپ نے سپین میں اسلاموفوبیا کے تحت تین لاکھ مسلمانوں کو اندلس سے دربدر کیا- موجودہ دور میں مغرب ہر مسلمان کو دہشت گرد نہیں سمجھتا لیکن ہر دہشت گرد کو مسلمان ضرور سمجھتا ہے- ٹرمپ،بریگزٹ اور الٹرا نیشنلزم کے دور میں سفید فام شدت پسند کھلے عام میڈیا پر نفرت انگیز بیانات دیتے ہوئے نظر آتے ہیں- یہ کھل کر اسلام اور مسلمانوں کے بارے وہ سب لکھ اور بول سکتے ہیں جو پہلے ایڈیٹرز اور پبلشر نہیں شائع کرتے تھے-
سوشل میڈیا چونکہ پروپگنڈا کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے، جہاں جب چاہے جو چاہے اسلام کے خلاف لکھ دے اور مغربی معاشرہ کسی حد تک اسے قبول بھی کر لیتا ہے- گزشتہ ہفتے فاکس نیوز کی میزبان جینائن پیرو نے پہلی امریکی مسلمان کانگریس کی رکن کے بارے کہا، “کیونکہ یہ حجاب کرتی ہے لہذا یہ امریکی آئین کی کبھی وفادار نہیں ہو سکتی” – علاوہ ازیں سالوں سے نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے اخبارات مسلمانوں کے خلاف من گھڑت کہانیاں شائع کرتے چلے آئے ہیں- چناچہ مغربی میڈیا اسلاموفوبیا کا ایک اہم سبب ہے اور جب تک یہ میڈیا سفید فاموں کو برتری کا احساس دلاتا رہے گا، کرائسٹ چرچ جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے-
لہذا اب مغرب، مشرق کو خواتین کے حقوق یاد دلانے کی بجائے اپنے باسیوں کے ذہنوں کی پروپگنڈا سے پاک مثبت تربیت کرنے پر محنت کرے، تاکہ ان کی آنے والی نسلیں کسی مذہب یا قومیت پر انگلی اٹھانے کی بجائے اصل معاشرتی مسائل کو حل کر سکیں-