مذہبی گھرانے میں 19 اپریل 1931ء میں بھارت کے شہر رام پور میں ایک بچے نے آنکھ کھولی چار بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے ابھی تین سال کے تھے کہ ماں کی شفقت سے محروم ہوگئے بچے کے والد سید مرشد علی کی اس وقت عمر35 سال تھی بچے کی پرورش کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری شادی سے اجتناب کیاگھرانہ چونکہ مذہبی تھا انگلش نظام تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھااس لئے چودہ سال تک بچہ مدرسے میں اردو، عربی، فارسی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتا رہا سید مرشد علی کا خاندان 1943 ء میں ہجرت کرکے ملتان شریف منتقل ہوگیااور گڑ منڈی کی ایک مسجد میں بارہ سال بطور خطیب رہے اسی دوران بچے کے والد کی سوچ میں تبدیلی نے انگڑائی لی اور بچے کو 1949ء ملتان کے اسلامیہ سکول میں ساتویں جماعت میں داخل کرادیا گیا پھر ملت سکول میں ایڈمشن لیا خاندان کے زیادہ لوگ حیدر آبادسندھ میں مقیم تھے لہذا یہ فیملی بھی 1955 ء میں حیدر آباد منتقل ہوگئی اور بچے کو سٹی کالم میں داخل کرادیا گیا۔
بچے کو پائلٹ بننے کا شوق تھا ایئر فورس جوائن کرنا چاہتے تھے لیکن گھریلو حالات اتنے اچھے نہ تھے کہ ٹریننگ کے لئے ایبٹ آبادجا سکیں معاشی حالات کے پیش نظر انہیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا تھا ذریعہ معاش کے لیے انہوں نے کوئی کام کرنے کا سوچا ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈرامہ آرٹسٹ کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ڈرائریکٹر قیوم صاحب سے اپنے بھائی کا تعارف کرایااور ریڈیو حیدر آباد سے منسلک ہوگئے اور آگے چل کر یہ بچہ پاکستان فلم انڈسٹری میں محمد علی کے نام سے کئی برسوں تک راج کرتے رہے انہیں شہنشاہ جذبات کا لقب بھی ملا ۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو شہنشاہ جذبات محمد علی کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ محمد علی ایک بہت بڑے فنکار اور عظیم انسان تھے انہوں نے اداکاری میں اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیںانہوں نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔
ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیاریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کئے اس وقت انہیں ایک ریڈیو پروگرام کے دس روپے ملا کرتے تھے ریڈیو پاکستان کے جرنل ڈرائریکٹر ذوالفقار احمد بخاری المعروف زیڈ۔ اے بخاری نے جب محمد علی کی آواز کو سنا تو انہیں کراچی بلایااور انہیں آواز کے اتار چڑھاؤ، مکالموں کی ادائیگی، جذبات کے اظہار کا انداز بیاں اور مائکرو فون کے استعمال کے تمام گرسکھا دیے۔ زیڈ۔ اے بخاری نے ان کی آواز کی وہ تراش خراش کی کہ صدا کاری میں کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔
شہنشاہ جذبات محمد علی نے 1962ء میں فِلم ‘ چراغ جلتا رہا’ سے فلمی کیرئر کا آغاز کیااس فلم کا افتتاح مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کراچی کے نشاط سینما میںاپنے ہاتھوں سے کیا فلم کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی لیکن محمد علی نے فلم میکرز کی توجہ ضرور حاصل کر لی پہلے پانچ سالوں میں بطور ولن فلموں میں کریکٹرکئے 1963 ء میں عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم “شرارت” سے انہیں شہرت ملی اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگایوں تو انہوں نے شمیم آراء ،شبنم،عالیہ ،آسیہ،رانی،ممتاز،بابراشریف ،نشو،دیبا بیگم کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا لیکن زیبا جو ان کی اہلیہ ہیں ان کے ساتھ جوڑی خوب جچی ان کی ہیروئن زیادہ تر زیبا ہی بنیں اس جوڑی نے 75فلموں میں اکھٹے کام کیاوحید مراد ندیم کے ساتھ ان کی فلمیں ”پھول میرے گلشن کا”،”جب جب پھول کھلے”اور ”شمع”جیسی کامیاب فلمیں بنیں ان تینوں اداکاروں کا ٹرائیکا فلم بینوں نے خوب پسند کیا احمد رشدی اور مسعود رانا کے گیت بھی ان پہ پکچرائز ہوئے لیکن ان پہ زیادہ گانے شہنشاہ غزل مہدی حسن کے پکچرائز ہوئے اور عوام نے پسند بھی کئے فلم ”چراغ جلتا رہا ”کی شوٹنگ کے دوران ”علی زیب” نے اپنی محبت کا چراغ جلا لیا تھا 29ستمبر، 1966 بروز جمعرات کو فلم ”تم ملے پیارملا” کی شوٹنگ کے دوران اداکار آزاد کے گھر سہ پہر تین بجے ان کا نکاح ہوگیا۔
دونوں نے انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری رب کائنات نے انہیں بے شمار دولت ،عزت اور شہرت سے نوازالیکن اولاد سے محروم رہے ان کی جوڑی کو قابل احترام نظروں سے دیکھا جاتا تھااس جوڑی نے حج اور کئی عمرے اکھٹے کئے زیبا کی علی سے پہلے شادی جنگ جو ہیرو سدھیر سے ہوئی تھی ان سے ایک بیٹی ثمینہ پیدا ہوئی جس کی پرورش محمد علی نے حقیقی اولاد کی طرح کی شادی کے بعد محمد علی اور زیبا نے “علی زیب” کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کیا انھوں نے “علی زیب فاؤنڈیشن” کے تحت سر گودھا، فیصل آباد، ساہیوال اور میانوالی میں تھیلسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج اور کفالت کے لیے ہسپتال قائم کیے، جہاں بلا معاوضہ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس ادارے کے تمام اخراجات وہ اپنے وسائل سے پورے کرتے تھے۔ “علی زیب فاؤنڈیشن” کے علاوہ محمد علی کئی اداروں کے صدر اور فاؤنڈر ممبر رہے نجی سطح پر بھی علی زیب ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد معاونت کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے کئی بیواؤں اور یتیموں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ بہت سے غریبوں کے گھر کے چولہے محمد علی کے امدادی چیک سے جلتے تھے۔
ان کے ذو الفقار بھٹو کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ 1974ء میں مسلم سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سلطان قابوس اور شاہ فیصل شہید نے علی زیب ہاؤس میں ہی قیام کیا تھار مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انھیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی، ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا نواز شریف سے ان کے بہت قریبی تعلقات رہے، وہ ان کے ایڈوائز بھی رہے، محمد علی کو اسی طرح ہمیشہ قومی سطح پر اولیت دی جاتی رہی محمد علی نے 277 فلموں میں کام کیا جن میں 248 اردو، 17 پنجابی، 8 پشتو، 2 ڈبل وریڑن انڈین، 1 بنگالی 28 فلموں میں بطور مہمان اداکار اور ایک ڈاکو منٹری فلم میں کام کیامحمد علی کی مشہور فلموں میں جاگ اٹھا انسان ،خاموش رہو، جب جب پھول کھلے ،شمع،پھول میرے گلشن کا،بہن بھائی ،آرزو،صائقہ ،حیدر علی ،ٹیپو سلطان ، جیسے جانتے نہیں، آگ ، گھرانہ ،میرا گھر میری جنت ،بہاریں پھر بھی آئیں گی ،محبت ،تم ملے پیار ملا اور دیگر بہت سی فلمیں شامل ہیںپاکستانی سینما کے یہ لازوال فنکار 19 مارچ 2006 میں اچانک دل کا دررہ پڑنے پردنیا سے کوچ کرگئے رب کائنات ان کے درجات بلند اور مغفرت فرمائے آمین۔