حامل القرآن

Quran

Quran

تحریر : شاہ بانو میر

جب سے یہاں قرآن کا آغاز ہوا ہے
سب بدلتا جا رہا ہے
ہماری سہیلیاں اب جہاں ملتی ہیں احساس دلاتی ہیں
جیسے ہم مسلمان نہیں ہیں
میں کچھ حیرت اور کچھ تاسف سے سن رہی تھی
مجھے کچھ تفصیل سے بتائیے
سادہ لوح خاتون بڑی سادگی سے بتا رہی تھیں کہ
وہ ماہانہ اپنے عقیدے کے مطابق کسی محفل کا انعقاد کرواتی ہیں
کچھ عرصے سے قرآن سے منسلک ہونے والی کچھ خواتین عجیب سا رویہ اپنا رہی ہیں
ان سب کو دیکھ کر بد دلی کا مظاہرہ
ان سے محفل میں اجتناب اور کسی نہ کسی بات میں نقص
کیا پڑھ رہے ہیں آپ لوگ؟
غلط پڑھ رہی ہیں
سوچیں جن کے پاس سنا سنایا گھریلو دین ہے قرآن نہیں جانتیں ایسا انداز
انہیں قرآن سے قریب کی بجائے دور کر دے گا
جبکہ
قرآن تو یکجہتی کا درس دیتا ہے
ان کی مایوسی دیکھ کر انہیں دلاسہ دیا
کہ
استاد تو ایسے رویے نہیں سکھاتے
نہ ہی قرآن کا یہ انداز ہے
یہ رویے تو علامت ہیں
کہ
علم ابھی راسخ نہی ہوا
شاگردوں کی بے احتیاطی اساتذہ کرام کو ذمہ دار بنا دیتی ہے
حالانکہ
موجودہ دور میں اخلاق کا اعلیٰ معیار صرف اساتذہ کرام سے ملتا ہے
میرے سچے رب کی باتیں پر اثر ہیں
اس پر حسن بیاں جب یکجا ہوتا ہے
تو دین یہاں بھی ویسے ہی ہر جانب پھیلتا چلا جاتا ہے جیسے آغاز اسلام میں عرب کے صحراوں میں پھیلا تھا

ہم خود پر دوسروں سے بہتر ہونے کا گمان کیسے کر سکتے ہیں ؟
جبکہ
یہ صرف اللہ کو پتہ ہے
درجہ کس کی مظلومیت کا بڑھا
اور
کس کے ظلم نے اعمال ضائع کر دیے
کون جانتا ہے؟
کوئی نہیں

علم نعمت ہے اور دینے والے اعلیٰ ترین نعمت
قدر کریں
غرور تکبر بے احتیاط زبان نعمت کو زوال میں نہ بدل دے
صحابہ کرام ایمان لانے سے پہلے کون تھے ؟
عرب کے عام انسان
علم اور حلم سے دنیا میں بشارتیں مل گئیں
دین معرفت ہے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی
استاد تو سچا دین ہی بانٹتے ہیں
کہ
ان کا کام سنت کے مطابق پیغام پہنچانا ہے
اب علم کے ساتھ عمل کا پانی کس کے اندر حقیقی عاجزی لایا
یہ تو اس کا اپنا عمل ہے
سوچیں سادہ لوح بہنیں اگر آج قرآن سے دور ہمارے ذہنی معیار سے مطابقت نہیں رکھتیں تو کچھ سال پہلے
ہم ایسے ہی تھے
آج اگر اللہ کی توفیق ہمیں مل گئی تو ہم ان سے اور ان جیسی دیگر بہنوں سے
علم لینے کی وجہ سے فاصلہ قائم کریں ؟
کل جب ہم ایسے تھے
تو
سوچیں
ہمارے محسنوں نے ہمیں کیسے پیار سے تھاما
سنوارا
نکھارا
تعلیم سے نیا انداز دے کر حامل قرآن بنایا
علم آجانے کے بعد کمزور کم علم سے تکبر علم کی نہیں جہالت کی نشاندہی کرتا ہے
ہم باہر اپنے اساتذہ کرام کی پہچان ہیں
کیا ہمارے شفیق اساتذہ کرام کی یہ پہچان ہے
ہر گز نہیں
ان کی اچھی پہچان کے لیے ہمیں خود کو بہتر کرنا ہے انشاءاللہ
علم جتنا ملتا ہے لہجے اتنے مدہم اور عاجز ہوتے چلے جاتے ہیں
اس سال کے دورہ قرآن میں استاذہ کا ساتھ دیں
ذرا سا نرم لہجہ فاصلے مٹا دے گا
دور ہوئے دل قریب لے آئے گا
دورہ قرآن اپنے اصل ھدف کو حاصل کرے گا
کم علم سادہ لوح سے دوری نہیں ان سے قربت اختیار کرنی ہے
تا کہ
ہماری طرح سب کی زندگیاں تبدیل ہوں
کہ
ہم جہاں جائیں پہچانے جائیں
حامل القرآن ایسے ہوتے ہیں
ایک جسم کے اعضاء کی مانند خوشی میں کھلے ہوئے
درد میں سب ایک ساتھ تکلیف محسوس کرتے ہوئے
پھر سے ایک سیسہ پلائی ہوئی امت انشاءاللہ
وہی ہیں اصل حامل القرآن

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر