بھارتی انتخابات: انٹرنیٹ کمپنیوں کا رضاکارانہ ’ضابطہ اخلاق‘

Indian Elections

Indian Elections

ممبئی (جیوڈیسک) بھارت میں آئندہ انتخابات کے دوران سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر قدغن لگانے کی کوشش کے تحت دنیا کی اہم انٹرنیٹ کمپنیوں نے رضاکارانہ طور پر ’ضابطہ اخلاق‘ پرعمل درآمد کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اسے آج اکیس مارچ سے نافذ کر دیا ہے۔

ان اہم ترین انٹرنیٹ کمپنیوں نے بھارتی الیکشن کمیشن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ووٹنگ سے اڑتالیس گھنٹے قبل کسی طرح کی سیاسی مہم چلانے کی اجازت نہیں دیں گی اور الیکشن کمیشن کی کسی شکایت کا تین گھنٹے کے اندر ازالہ کردیں گی۔

اس ضابطہ اخلاق کا مقصد ان اقدامات کی نشاندہی کرنا ہے، جو ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمو ں کا استعمال کرنے والو ں میں انتخابی عمل کے تئیں اعتماد میں اضافہ کا سبب بنے۔ اس کے ساتھ ہی اس سے آئندہ عام انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد نیز مذکورہ مواصلاتی ذرائع کے کسی بھی طرح کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد ملے گی۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا،’’تجارتی انجمنو ں کا نمائندہ ادارہ انٹرنیٹ اینڈ موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا(آئی اے ایم اے آئی) اور فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر، گوگل، شیئر چیٹ اور ٹک ٹاک سمیت سوشل سائٹس چلانے والی دیگر کمپنیوں نے سن 2019 کے عام انتخابات کے لیے رضاکارانہ طورپر ضابطہ اخلاق تیار کیا ہے اور انتخابی عمل کی سالمیت اور شفافیت میں سدھار کر کے اس جمہوری عمل کی حمایت کرنے کے لیے اپنی عہد بندی کا اظہار کیا ہے۔‘‘

اس ضابطہ اخلاق کی رو سے الیکشن کمیشن کے ذریعہ مقرر کردہ افسرکی طر ف سے کسی قابل اعتراض مواد کی نشاندہی کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیا ں ترجیحی بنیاد پر حسب قانون کارروائی کریں گی۔ ان کمپنیوں نے پیسہ دے کر سیاسی اشتہارات کی اشاعت کے سلسلے میں بھی زیادہ شفافیت برتنے کا وعدہ کیا ہے۔

دراصل یہ ضابطے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خدشات کے بعد تیار کیے گئے ہیں۔ یہا ں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گمراہ کن معلومات، نفرت آمیز تقاریر اور تفرقہ پھیلانے والے مواد آئندہ عام انتخابات میں سب سے زیادہ تشویش کا موجب ہو سکتے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا، ’’ضابطہ اخلاق تیار کرنا ایک اچھی پہل ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ضابطہ اخلاق میں جن امور کا ذکر کیاگیا ہے، متعلقہ کمپنیاں ان پر پوری ایمانداری اور خلوص کے ساتھ عمل کریں۔ آئی اے ایم اے آئی سوشل میڈیا اور کمیشن کے درمیان رابطہ کا کام کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کمپنیاں نوڈل افسران کو تشہیری مواد کے بارے میں دی گئی رپورٹ پر قانون کے مطابق کارروائی کریں گی۔‘‘

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات کی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلے کی پولنگ گیارہ اپریل کو ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتیں اور بالخصوص حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اس مرتبہ کے الیکشن میں سوشل میڈیا کا بڑے پیمانے پر استعمال کرنے والی ہے۔

یہ پہلا الیکشن ہے جس میں اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والی نسل اور اسمارٹ فون استعمال کرنے والے نوجوان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے گی۔ سن 2014 میں بھارت میں81.5 کروڑ ووٹر تھے جب کہ اس مرتبہ ووٹرو ں کی تعداد بڑھ کر 90 کروڑ ہوگئی ہے۔

2014ءکے مقابلے 2019 ء میں سوشل میڈیا کا اثر ونفوذ کافی بڑھ چکا ہے۔ سن 2014 میں بھارت میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والو ں کی تعداد تقریباً پچیس کروڑ تھی جو آج بڑھ کر پچپن کروڑ ہوچکی ہے۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والو ں کی تعداد گزشتہ برس چالیس کروڑ سے زائد ہوچکی تھی۔ فیس بک کے بھارت میں تقریباً چالیس کروڑ صارفین ہیں جبکہ واٹس ایپ پر بیس کروڑ اور ٹوئٹر پر 3.4 کروڑ سے زیادہ افراد ہر ماہ سرگرم رہتے ہیں۔

بھارت بھر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی جیت کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق 543 نشستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔

ظاہر ہے ایسے میں سترہویں لوک سبھا کے لیے ہونے والے الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کو تقویت فراہم کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کریں گی۔ اس معاملے میں تاہم سبقت بھارتیہ جنتا پارٹی کو حاصل ہے۔ سن 2009 سے ٹوئٹر پر سرگرم وزیر اعظم نریندر مودی کے اس عہدہ پر فائز ہونے سے قبل 26 مئی 2014ء تک صرف چالیس لاکھ فالوورز تھے لیکن آج انہیں 4.63 کروڑ افراد ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں۔

جب کہ اپریل2015 ء میں ٹوئٹر کا استعمال شروع کرنے والے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کے فالوورز کی تعداد 88 لاکھ پہنچ چکی ہے۔ فیس بک پر بھی مودی کے مداحو ں کی تعداد 4.3کروڑ ہے اور انہوں نے اپنے نام سے ایک ایپ بھی لانچ کیا ہے، جسے اب تک ایک کروڑ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے۔

سوشل میڈیا پر نگاہ رکھنے والے آزاد ادارہ سافٹ ویئر فریڈم لا سینٹر کے لیگل ڈائریکٹر پرشانت سوگاتھن کا کہنا ہے، ’’مذہبی اور نسلی اختلافات پر مبنی مخصوص پیغامات ووٹروں کی صف بندی کر سکتے ہیں اور ملک کے متنوع ثقافتی تانے بانے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنا اہم اور دلچسپ ہو گا کہ جھوٹے پروپیگنڈہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا اور سوشل میڈیاکمپنیاں ووٹرو ں کو متاثر ہونے سے بچانے میں کتنا کامیاب ہوپاتی ہیں۔‘‘