۲۳ مارچ کا دن پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حا مل ہے ۔مسلم لیگ، پاکستان اور بر صغیر کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے کتابِ ماضی کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس روز برصغیر کے کونے کونے سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنے قائد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے ستائیسو یں سالانہ اجلاس کے موقع پر مسلمانوں کی آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لیے قرداد منظور کی جسے قراردادِلاہوریا قراردادِپاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو ۱۹۴۱ میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔مگر افسوس کہ پاکستان میں قومی تہوار تاریخی پس منظر میں منانے کی بجائے کھیل کود کر گزار دیے جاتے ہیں اور تاریخی ورثہ نسلِ نو کو منتقل کرنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا جاتا ہے۔
دنیا کے خطے میں پاکستان وہ واحد مُلک ہے جو ایک نظرئیے کی بنیاد پر قائم ہوا۔نظریہِ اسلام،اسلام کی علمبرداری،نظامِ اسلام کے نفاذ،مسلمانوں کی سر بلندی اور امن و سکونیت کے حصول کے لیے معرضِ وجود میں آنے والے پاکستان کے لیے قربا نیوں کی ایک لازوال داستان رقم کی گئی۔پا کستان کو حاصل کرنے کے لیے ان گنت قربانیاں دی گئیں۔ چشم فلک نے نہ جانے کتنے ہی لاشے خاک و خون میں تڑپتے دیکھے۔بیشمار لوگو ں کو اپنی جائداتیں چھوڑنی پڑیں۔دوکانوں،مکانات اور محلات سے محروم ہونا پڑا۔کتنی ما ؤں کی ہری بھری گود اناً فاناًاجڑ گئی۔کسی کو داغِ یتیمی ملاتوکسی سے اس کے بڈھاپے کا سہارا چھین لیا گیا ۔کسی کو خاوند کی جدائی کے غم میں مبتلا ہونا پڑا تو کوئی اپنی جیون ساتھی سے محروم ہو گیا۔کسی بہن کو اپنے کڑیل جوان بھائی کی قربانی دینی پڑی تو کسی بھائی کو اپنے سامنے بہن کا مقدس آنچل اترنے کے اذیت ناک غم سے دو چار ہونا پڑا۔
ایک منزل تھی جس کو پانے کے لیے آگ کے دریا کو عبور کرنا پڑا۔وو کون سا غم ،وہ کون سا دکھ ،وہ کون سی تکلیف ،وہ کو ن سی اذیت تھی جس کا سا منا نہ کرنا پڑاپھر جا کر کہیں یہ منزل ملی جس کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فر مایا کہ ’’لفظ قوم کی ہر تعریف کی روح سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور اس لحاظ سے ا ن کا اپنا علیحدہ وطن ،اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے ۔جہاں وہ اپنی روحانی ،ثقافتی،معاشی،معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اس طریق پر زیادہ سے زیادہ ترقی دیں جو ہمارے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو‘‘ مگر سوال یہ ہے کہ جس نظرئیے کی خاطر پاکستان بنایا گیا ، جس نصب العین کو سامنے رکھ کر پاکستان حاصل کیا گیا، جس دستورِ حیات پر عمل کرنے کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جس کا خواب ہمارے آباو اجداد نے دیکھا تھاَ ؟؟؟کیا پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم ہے ؟؟؟ کیا پاکستان قائد کے فرمان کے مطابق ایک فلاحی مملکت کا نقشہ پیش کر رہا ہے ؟؟؟ کیا پاکستان میں جمہوریت اپنی روح کے مطابق نافذالعمل ہے ؟؟؟ نہیں ہر گز نہیں۔۔ آْ ج جس طرف نظراٹھتی ہے آگ وخون کی بارش دکھائی دیتی ہے ۔ ہرسمت ظلم و جبرکا دھواں اٹھتا نظر آتا ہے۔
پاکستان کا غریب طبقہ مقہورو مجبور بن چکا ہے ۔’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کا مظاہرہ نظر آ رہا ہے ۔ملکی وسائل پر صرف چند خاندان مسلط ہیں۔ پاکستانی معیشت خاص ہاتھوں کے کنٹرول میں ہے ۔عوام خوف و دہشت کی فضاء میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔وقت کا تقاضہ ہے کہ آ ج کے دن کو ’’ یوم احتساب‘‘ کے طور پر منائیں اورسوچیں کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایاَ کیونکہ آج کا دن ہمیں اپنے بزرگوں اور عظیم راہنماؤں کی قربانیوں اور ان کے مقاصدکی یاد دلاتا ہے ۔کہ ہمارے ان رہنماؤں نے آزادی اور جمہوریت کا جو خواب دیکھا تھا و ہ شرمند ہِ تعبیر تو ہوا تا ہم ہمارے سامنے آزادی، اخوت،مساوات کا عظیم تصور تشنہء عمل ہے۔
وطنِ عز یز کے تمام باشندوں کو یکساں طور پر آگے بڑھ کریکجہتی کا عملی مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ ہم کا میابی کی منزل طے کر سکیں۔اس موقع پرہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماراملک آج بھی گوناں گو مسائل سے دوچار ہے اور یہ بات ہمارے لیے لمحہِ فکر یہ ہے۔بلاشبہ ہم نے شدید مزاحمتوں کے باوجود وفاقی اور جمہوری کردار کا زبردست مظاہرہ کیا۔سائنس وٹیکنا لوجی،حرفت و زراعت،نقل و حرکت ،اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ہمارے ملک نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن آج بھی ہم عدمِ مساوات،بے روزگاری،پسماندگی اور نا خواندگی وغیرہ کے عفریت سے دو چار ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس دور کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوے ملک و قوم کی ترقی و کامرانی کے لیے درست راستوں کا تعین کریں۔