سیاہ روپ کے طور پر، کالے دھبے کی مانند

Bilawal Bhutto

Bilawal Bhutto

تحریر : اے آر طارق

بلاول بھٹو زرداری خود، اپنے خاندان اور بشمول ساتھیوں کو نیب کے’’ شکنجے‘‘ میں پھنسے ،مشکلات میں پائے ،اِس صورتحال میں بجائے اِس کے کہ اپنے خلاف اِس کیس کوایک اچھے شہری کی طرحFACE کریں اور اپنے اوپر لگے اِن الزامات کا جواب دیں،’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگائے اِس کیس کو ہی مبنی بر بدنیتی ؍بدترین سیاسی انتقام قرار دیتے ،حقیقت کے برعکس کہتے ،فرماتے کہ اُن کی اور اُن کی فیملی کی کردار کشی کی جارہی،اِس کیس کوجھوٹا اور بے بنیاد بتانے؍ثابت پر تلے ہوئے ہیں اور بجائے اِس کے کہ اِس کیس کا جوانمردی سے سامنا کریں،اِس کو متنازعہ بنائے ہوئے ہیں،اِس کیس سے پریشان، ہاتھ میں کچھ نہ پاکر، سیاسی پینترابدلے ،چور مچائے شور کا روپ دھارے ،کرپشن میں بری طرح بمع فیملی؍ساتھیوں لتھڑے ہوئے، کے باوجود اِس کیس سے بچنے اور چھٹکارے کے لیے مختلف ملکی ہائی پروفائل ایشوز پر خطرناک حد تک ،ملک دشمنوں کو خوش کرنے والی سیاست کرتے،حکومت و اداروں کو دباؤ میں لانے کی سوچ لیے اپنے لیے ڈیل یا ڈھیل کی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

اپنی کمزور صورتحال کو بھانپتے ہوئے ملکی نازک ایشوز پر سیاست کا اتوار بازار لگائے ہوئے (جمعہ بازار اس لیے نہیں کہوں گا کہ جمعہ ایک مقدس دن اور مسلمانوں کاایک خاص الخاص عبادت والا تہوار ہے)اپنے مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کی کوششوں میں جتھے اپنے بچاؤ کے لیے ملک دشمن بیانیہ پر کام کر رہے ہیں،اپنے آپ کو بچانے کے لیے پاکستان کی سلامتی و وقار کو بھی داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اور اپنے غیر ذمہ درانہ بیانات کے ذریعے ایسی ایسی’’ زہر آلود پھلجڑی‘‘ چھوڑ رہے ہیں کہ خدا پناہ،اپنے حلیے اور باتوں سے آج کل معاف کیجیئے گا،قطعی طور پر پاکستانی نہیں لگتے،کچھ اور ہی دکھائی دیتے ہیں۔

اپنی کرپشن چھپانے ؍خفت و شرمندگی مٹانے ؍اپنے کیسوں سے نجات پانے کے لیے حکومت وریاستی اداروں سے مڈبھیڑ پر اُترے ،حکومت و اداروں کو خوامخواہ کے سوالوں میں الجھائے اپنی موجودہ سیاسی پتلی صورتحال پرپاکستان کی حالیہ نازک صورتحال سے ’’دشمن نہ کرے ،دوست نے وہ کام کیا ہے‘‘ کھیلے پاکستانیوں کے لیے درد سر بنے، دشمنوں کے لیے پیغام شفاء بنے ہوئے ہیں اوراِس پر کھیسانی بلی کھمباء نوچے کے مصداق’’میں کیسے مان لوں ‘‘کی طرح کی باتیں کیے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں،صرف اور صرف اپنے کرپشن سے بچاؤ کے لیے،سوئس اکاؤنٹ جیسی ایک ڈیل یا ڈھیل اور سہی کے لیے،وہ باتیں بنا اور فرمارہے کہ ان پر حیرت ہوتی ہے،اِن سے قطعی امید نہ تھی کہ اپنے اور اپنے خاندان کو بچانے کے لیے یہ ملکی سلامتی اور اُس کے مفادات سے اس حد تک ٹکرا جائیں گے،کبھی سوچا نہ تھا،اپنے بچاؤ کے لیے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر اتر آئے ہیں،دشمنوں کی سی بولی بولنے لگے ہیں۔

حکومتی و ریاستی اداروں کی مثبت کارکردگی کو محض اپنے بچاؤ کی ایک کوشش کے طورپر اور دشمن کو خوش کرنے کی خاطر چیلنج کرنے پر اُتر آئے ہیں ،اپنے تحفظ اور چھٹکارے کے لیے ملکی وقار سے کھیلنے تک آجائیں گے،حکومت کو اُس کی مسائل میں اُلجھی گھمبیر صورتحال پرملکی نازک ایشوز پر اپنے مقاصد کے حصول کی کوششوں کے لیے ’’کچھ دو ،کچھ لو ‘‘کی پالیسی اختیار کرنے کی تجویز دیتے ’’ہمیں کچھ نہ کہو، بات بن جائے گی‘‘کالعدم تنظیموں کے ایشوز پرفضول شور مچائے حکومت واداروں کو بلیک میل کر رہے اور اپنا بچاؤ چاہتے، اِس کے لیے ملکی عزت ووقار تک سے کھلواڑ کر رہے،خود کو عزیز جانے ،مُلک کی جڑوں میں بیٹھے اِس کے کاز کے خلاف کام کررہے ہیں۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے کرتا دھرتا کی پرانی عادت ہے کہ جب اِن کی اپنی ہی نالائقیوں،حماقتوں ؍لوٹ مار کے باعث جان پر بن آتی ہے تو یہ اپنے’’ مال وعیال‘ بچاؤ کے لیے ملکی اداروں کی بینڈ بجانے پرآ جاتے اور ملکی سلامتی کے برعکس خلاف بیان دے کر اِس ملک کی آن بان شان سے کھیل جاتے اور اِس پر لمحہ بھر کے لیے بھی شرماتے نہیں،بلکہ اپنی بات پر اڑ جاتے اور اپنے اِس قول وفعل کے باعث اِسے ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچانے تک آجاتے،حکومت واداروں کے خلاف بولنے پر اتر آتے اور ایسے ایسے بیانات داغتے کہ کہ جن کی قیمت پھر یہ دیس برسوں تک ادا کرتا رہتا،مگر اس کی تلافی نہ ہو پاتی،خود تو ڈوبتے ہی ہیں،اس کے ساتھ ساتھ ملک کوبھی لے ڈوبتے ہیں۔

اپنے ڈوبنے پر ملک کو بھی توڑنے پر آجاتے ہیں اور اِس کی عزت وحرمت پر وہ وہ داغ اور زخم لگاتے جاتے کہ جس کاگاؤ،مدتوں نہیں بھرتا،ایک ایسا زخم کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،کرپشن ،لوٹ مار،ہیرا پھیری ،اختیارات سے تجاوز،ملک دشمنی میں ملوث ایسے سیاستدانوں کے دئیے گئے زخم پھر آسانی سے مندمل نہیں ہوتے،ارض وطن کے لیے ناسور بنے ،پھوڑے کی شکل اختیار کیے،اس کی صحت کو گھلاتے ،خراب کرتے ،ٹھیک ہونے کو نہیں آتے،ٹھیک ہونے کے لیے اکثر مدتوں لے جاتے،اِن جیسے سیاستدانوں کے اِس’’ پاک سرزمین ‘‘کو دئیے ہوئے اکثرزخم دنیا پرہمیشہ کے لیے اپنا اثر کیے، اپنا نشان چھوڑ جاتے،سیاہ روپ کے طور پر،ایک کالے دھبے کی مانند۔

A R Tariq

A R Tariq

تحریر : اے آر طارق