اسلام آباد (جیوڈیسک) ہائیکورٹ نے تحفظ کے لیے درخواست دائر کرنے والی گھوٹکی کی دو بہنوں رینا اور روینا کو سرکاری تحویل میں دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں گھوٹکی کی دو بہنوں کے مبینہ اغواء کے کیس کی سماعت ہوئی جس میں لڑکیوں کی والدہ سمیت بھائی شمن داس اور وکیل افتخار احمد چیمہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، اقلیتوں کے حقوق آئین پاکستان میں درج ہیں اور قرآن پاک سے بھی واضح ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے نبی کریمﷺ کے فتح مکہ اور آخری خطبے کا حوالہ دیتے ہوئے بھی اقلیتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی۔
سماعت کے دوران ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے اس تمام معاملے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے بھی غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، وفاقی حکومت نے جس انکوائری کا حکم دیا اس کی رپورٹ کب تک آئے گی؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر سے مکالمہ کرتے ہوئے ہدایت دیں کہ حتمی رپورٹ آنے تک دونوں بہنیں آپ کی مہمان ہیں، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو کہیں کہ گارڈین جج کا تقرر کریں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے حکم دیا کہ ایس پی رینک کی خاتون پولیس افسر کو لڑکیوں کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور کریں اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کریں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے دو ہندو بہنیں سندھ کے شہر ڈہرکی سے لاپتا ہوگئی تھیں جن کے حوالے سے پولیس کا دعویٰ ہے کہ 22 مارچ کو دونوں لڑکیوں نے منظر عام پر آکر نکاح کرلیا تھا اور دونوں نے میڈیا کے سامنے اپنی مرضی سے نکاح کا اعتراف بھی کیا تھا۔