ہندوستان میں بے روزگاری کا شدید بحران

Unemployment Crisis in India

Unemployment Crisis in India

تحریر : محمد آصف اقبال

ایک زمانہ تھا جب نہ پڑھائی بوجھ سمجھی جاتی تھی نہ ہی پڑھے لکھے لوگوں کے لیے نوکری حاصل کرنا کوئی مشکل عمل تھا۔چونکہ پڑھے لکھے لوگوں کا تناسب بھی کم تھا لہذا نوکریوں کا حصول آسان مرحلہ سمجھا جاتا تھا۔اُس زمانہ میں اگر کوئی ولایت سے ڈگری حاصل کرلے تو اس کے کیا ہی کہنے ،لیکن آج ایسا نہیں ہے۔روزگار کے حساب سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں آج سے پچاس سال پہلے ملک کی اکثریت بڑے شہروں سے دور گائوں اور دیہات کی زندگی بسر کرتی تھی اور کھیتی باڑی ہی راست یا بلاواسطہ ان کے مسائل کا حل تھا۔لیکن آج گائوں اور دیہات خالی ہوتے جا رہے ہیں ۔اکثریت شہروں کا رخ کررہی ہے اور شہر بھی اپنادامن پھیلاتے جا رہے ہیں۔نتیجہ میں گائوں دیہات کے لوگ بھی آج بڑے شہروں کے مسائل میں الجھتے جا رہے ہیں۔ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور حد درجہ بڑھتی منہگائی ہے۔وہیں اخلاقیات سے عاری اور مغربی اثرات سے متاثرمعاشرے کا دائرہ وسیع ہوناہے۔جو کسر باقی رہ گئی تھی اس پر فرقہ واریت کا رنگ چڑھ گیا ہے جس کے اثرات فکری و نظریاتی اعتبار سے گائوں دیہاتوں کے باالمقابل شہروں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ان حالات میں ذہنی دبائو،مایوسی اور نا امیدی جیسی بیماریوں میں نوجوانوں کا ایک بڑاطبقہ ملوث ہوتا جا رہا ہے۔لیکن وہ اس حالت میں بھی نہیں ہے کہ اپنا علاج ہی کروا سکے۔کیونکہ ایک جانب وہ بے روزگار ہے تو دوسری جانب علاج و معالجہ کا منہگا اور منافع بخش کاروبار ،جس نے مرنے سے پہلے ہی مسائل میں الجھے لوگوں کومرض الموت میں مبتلا کر دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ حالات کیوں اور کیسے پیدا ہوئے؟اور ان حالات کے آغاز و انتہا میں حکومتوں کا کیا کردار رہا ہے؟

سن 1980کے بعد ہندوستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک نے نیو لبرل پالیسیزکو اختیار کیا اور فلاحی ریاست کا خیال آزاد ماکیٹ کی معیشتfree market economyسے تبدیل کر دیا گیا۔انفرادی آزادی اور پسنددھیرے دھیرے سماجی متبادل کے لیے بہتر بنتے گئے اور اس میں سب سے بڑا کردار نجکاری یعنی privitizationکا رہاہے ۔دوسرے الفاظ میں فلاحی ریاست کے تحت جن انسٹی ٹیوشنس کو چلانا اور شہریوں کو بہترخدمات فراہم کرنا حکومت کا کام تھا اب وہ کام نجی ادارے انجام دینے لگے۔دلیل یہ دی جاتی رہی کہ وہ ادارے جو منافع کی بجائے نقصان کا شکار تھے انہیں نجی کاری میں شامل کیا گیا ہے۔مقصد اس کی کارکردگی اور خدمات کو بہتر اور منافع بخش بنانا ہے۔لیکن privitizationکے عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ تجربہ ناکام اور نقصان دہ رہا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ عصرحاضر میں نجکاری امپیریل کنٹرول کے تحت کی جاتی ہے۔اس سے عالمی سرمائے کے مردہ ڈالروں کی گلو بلائزیشن میں جان پڑ جاتی ہے۔ گلوبلائزیشن کا استحصال متحرک ہوجاتا ہے اور سٹہ باز اپنی دولت”پارک” کر کے اسٹاک مارکیٹوں میں جوا کھیل کر عوام کی دولت لوٹتے ہیں۔نجکاری کے پروگرام کو ترتیب دے کر امپیریل فنڈ وصول کرنے والے مشیر، معاشی دہشت گرد اور حکومتیں مع ایجنسیوں کے یہ کام انجام دیتی ہیں۔اور سرمایہ داروں کا عالمی پیرس کلب اس عمل کی نگرانی کرتا ہے ۔ نجکاری کا دائرہ عمل یا احاطہ کار اور فریم ورک کا تعین معاشی طاقتوں (سینٹرل بیکرز) کی ایما پر عالمی مالیاتی ادارے کرتے ہیں۔ چنانچہ عوام کی کمائی پر ہوئی ٹیکسوں کی آمدنی اور ان سے بنائے ہوئے قومی اثاثے عالمی سرمایہ داروں کو منتقل ہو جاتے ہیں جن کی واپسی نا ممکن ہو جاتی ہے۔

بقول ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد ”نجکاری اندرونی قدر میں نہ تو اضافہ کرتی ہے اور نہ ہی روزگار کو بڑھاتی ہے بلکہ گھٹاتی ہے”۔ اس سے واضح ہو تا ہے کہ نجکاری کے عمل سے مقامی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، نہ ہی پیداواری قوتیں توانا ہوتی ہیں جس سے عوام کو فائدہ ہو۔ امپیریل قوتوں کے مراکز میں نجکاری کی حکمت عملی اس طرح طے کی جاتی ہے کہ سامراجی معیشت کے خطوں میں ارتکاز دولت مزید بڑھتا ہے تا کہ عالمی سرمائے کے بہاؤ میں کوئی رکاوٹ یا سرحد حائل نہ ہو سکے۔ نجکاری کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صرف کسی ادارے کو”ٹیک اوور” کرنا ہے۔ بلکہ ایسے پیداواری اسٹرکچر کو ختم کرنا مقصود ہوتا ہے جوعالمی مسلط کردہ سامراجی کنٹرول یا عالمی سرمائے کے لیے چیلنج ہو۔ اس لیے ان طاقتوں کو اس امر سے کوئی غرض یا دلچسپی نہیں کہ پرانا اسٹرکچر قائم رہتا ہے یا نہیں۔ ایک مرتبہ اثاثوں کی نجکاری ہو جائے تو ازخود ہی اس کا پھل عالمی ساہوکار کھائیں گے۔ کنٹرولڈ جمہوریت یا ملٹری حکومتوں کے ذریعے سے عمداً یہ کام پارلیمینٹ کے بغیر ہی کرایا جاتا ہے۔ اس لیے اس قسم کی جمہوریت عوام کے لیے بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس سارے کھیل میں اجتمائی جدوجہد، سماجی انصاف کا حصول اور تبدیلی کا عمل ابہام کا شکار ہو کر دم توڑ نے لگتا ہے اور نتیجہ میں قومی ریاست کا تشخص عالمی تجارتی تنظیم اور آئی ایم ایف کے تابع ہو جاتا ہے۔

گفتگو کے پس منظر میں یہ بات بھی آپ کے علم میں ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں ملک گیر سطح پر بڑے بڑے احتجاجات ہوئے ہیں۔ اس میں ڈیفنس ملازمین، کسان،مزدور،حکومتی اداروں میں کام کرنے والے افراداور منظم و غیر منظم شعبوں سے تعلق رکھنے والے سب شامل ہیں۔ یہ احتجاجات اس لیے ہوئے ہیں کہ مختلف گروہوں سے وابستہ ملازمین کا مؤقف ہے کہ مودی حکومت نجی کمپنیوں کو فروغ دے رہے ہی جس سے تمام ملازمین کو اپنی ملازمتیں شدید خطرات سے دوچار نظرآرہی ہیں۔ہندوستانی اقتصادی ماہرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کی 41 آرڈی ننس فیکٹریوں میں سے 21 بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں۔

ہڑتال کی کال دینے والی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ حکومت نے ‘میک ان انڈیا ان ڈیفنس’ کے خوبصورت نعرے پر ہندوستان کی دفاعی صلاحیت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی حکومت براہ راست اس صورتحال کی اس لیے ذمہ دار ہے کہ ایک جانب اس نے آرڈی ننس فیکٹریوں کے آرڈرز میں کمی کی اور دوسری جانب کافی تعداد میں ای ایم ای ورکشاپس کو بھی بند کردیا۔حالت یہ ہے کہ بی جے پی ہی کی ذیلی تنظیم ‘بھارتی پرتشا مزدور سنگھ’ کے رہنما سادھو سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت ہماری نہیں سن رہی ہے تو ہم کیا کریں؟ دوسری جانب آل انڈیا ڈیفنس ایمپلائز فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری سی کمار کہتے ہیں مودی حکومت کا ‘میک ان انڈیا ان ڈیفنس’ کا نعرہ سو فیصد جھوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کر رہے تھے اسے بھی مودی سرکار باہر کے لوگوں کو دے رہی ہے۔سی کمار نے کہا تھا کہ وہ گزشتہ 40 سال سے اس فیلڈ میں ہیں اور پہلی مرتبہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ 21 آرڈی ننس فیکٹریوں کے پاس کام ہی نہیں ہے۔

مختلف آرڈی ننس فیکٹریوں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے ایس ایم پاٹھک کا کہنا ہے کہ روزگار دینے کے بجائے مودی حکومت برسر روزگار لوگوں کا بھی روزگار چھین رہی ہے، ایک جانب باہر سے کام کرایا جارہا ہے اور دوسری طرف رشوت خوری کی وجہ سے نجی کمپنیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی مودی حکومت پرکڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی کی حکومتیں جن ریاستوں میں قائم ہیں وہاں اب تک 12 ہزار کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ ان کا سوال تھا کہ آخر یہ خودکشیاں کیوں ہوئیں؟ان حالات میں سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے حالیہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، فروری 2019 میں بے روزگاری کی شرح 7.2 فیصدتک پہنچ گئی ہے، یہ ستمبر 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں یہ اعداد و شمار 5.9 فیصد تھا۔وہیں ایک تھنک ٹینک کے سربراہ مہیش ویاس نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بے روزگاری کی شرح میں یہ بڑا اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب نوکری تلاش کرنے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بے روزگاری کے بحران سے متاثر شہری در در بھٹک رہے ہیں ، دوسری جانب لوک سبھا الیکشن کا کھیل ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے حقیقی مسائل عوام کے سامنے ہوں گے یا’گودی میڈیا ‘اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوگا!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com