انسان فطری طور پر بے صبری ‘ جلد بازی کے ساتھ ساتھ بے لگامی کی جبلت بھی رکھتا ہے ‘ انسان کی ہر غلط فطرت اُسے شر پسندی کی طرف مائل کر تی ہے ‘ انسانی جبلت کے اِن رزائل کو کنٹرول کر نے میں مذہب بنیادی کردار ادا کر تا ہے ‘ جب انسان کو یہ شعور ہو کہ اُس کے ہر غلط فیصلے کا اُسے جوا ب دینا ہے ‘ دنیا سے مرنے کے بعد اُسے دوبارہ زندہ کر کے حقیقی خدا کے سامنے دنیاوی اعمال کی جواب دہی کے لیے پیش کیا جانا ہے دنیا میں اچھے اعمال کا انعام دیا جانا ہے تو جزاو سزا کے تصور سے وہ دنیا میںاپنی عارضی زندگی کے دوران شر پسندی سے اجتناب کر تا ہے ‘ نیکی بھلائی کے کاموں کی طرف راغب رہتا ہے یہ مذہب ہی ہے جو انسان جیسے بے راس گھوڑے کو لگام ڈال کر رکھتا ہے اور اگر انسان کے دماغ سے مذہب جزا و سزا کا تصور نکال دیا جائے تو اُس کی فطرت میں شر کا عنصر اُسے سراپا شر پسندی بنا دیتا ہے وہ روز محشر کے خیال سے محروم ہو تا ہے ‘ دنیا ہی اُس کی حقیقی زندگی ہو تی ہے وہ پھر اچھے برے کے تصور سے بھی محروم ہو کر جانور کا روپ دھار لیتا ہے۔
جانور کا کام ہے چیرنا پھاڑنا دوسروں کو مار کر اُسے خوراک کے طور پر ہضم کر جاناایسا انسان رحم دلی نیکی بھلائی سے محروم ہو جاتا ہے ایسا انسان پھر خدا کا خلیفہ نہیں رہتا بلکہ بے راس درندہ ہو تا ہے جس پر شر پسندی غالب ہو تی ہے اُسے ایسے کسی عمل یا ظلم بربریت کی آخر ت میں سزا کا خوف بھی نہیں رہتا وہ پھر چلتا پھرتا درندہ عفریت بن جاتا ہے پھر ویسی حرکات گھناونے جرائم کر تا ہے کہ مہذب انسان اُس کی حرکتیں دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ‘ ایسے درندہ صفت انسان پر امن معاشروں کا امن تباہ برباد کر دیتے ہیں ‘ ایسے لوگ انسانی آبادیوں میں رہنے کے قابل نہیں ہو تے بلکہ یہ جانور نما عفریت جو کسی بھی وقت پر امن انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ سکتے ہیں پھر سلاخوں کے پیچھے ہونے چاہیں تا کہ دھرتی کا امن قائم رہ سکے ایسا ہی ایک واقعہ چند دن پہلے دنیا کے پر امن ترین ملک نیوزی لینڈ میںپیش آیا جب مذہب اخلاقیات اچھائی امن بھائی چارہ سے محروم ایک سفید فام دہشت گرد برینڈن ٹیرنٹ گاڑی میں جدید ترین خوفناک آتشیں اسلحہ لے کر کرائسیٹ چرچ کی مسجد النور پر درندے کی طرح حملہ آور ہو تا ہے موجودہ دور بلاشبہ مادیت پرستی کے طلسم میں گرفتار ہے مادیت پرستی موجودہ دور کے انسان کی ہڈیوں تک سرایت کر چکی ہے۔
مذہبی اخلاقی اقداراب آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہیں جدید دور کی چکا چوند روشنیوں نے آج کے انسان کو فحاشی عیاشی کے اڈوں کا اسیر بنا کر رکھ دیا ہے اِس گئے گزرے دور میں معاشرے کی کریم تھوڑے لوگ ہیں جو مذہبی اخلاقی اقدارروایات پر پابند ہیں جو امن بھائی چارے محبت کا پرچار کرتے ہیں لاکھوں کے شہروں میں کم تعداد میں یہ امن پسند لوگ ہوتے ہیں جو بے ضرر معصوم پیا رکرنے والے لوگ ہو تے ہیں جو مسلسل اپنا محاسبہ کر تے ہیں ‘ معاشرے کے امن اور محبت کی عمارت ایسے ہی گنتی کے لوگوں کے وجود سے قائم ہے ‘ معاشرے کی خوشبو چند لوگ جو خدا کی عبادت کے لیے مسجد میں جمع ہوئے ایک سفید فام دہشت گرد درندہ بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا ‘ نیو زی لینڈ جس کا شماار دنیا کے امن پسند ترین ملکوں میں شامل ہو تا ہے کو ئی تصو ر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اُس ملک میں درندگی کی یہ بھیانک واردات ہو گی اِس لیے درندہ صفت انسان خطرناک آتشیں اسلحے کے ساتھ جب ان معصوم نہتے بچوں عورتوں جوانوں بوڑھوں پر حملہ آور ہوا تو اُس کا سامنا معصوم نیک صفت لوگوں سے تھا جن کو اُس درندے نے چن چن کر شہید کیا اُس کی درندگی کی انتہا بار بار میگزین بدلتا رہا ہتھیار بدلتا رہا۔
سفاکی کی انتہا یہ کہ کیمرہ لگا کر اپنی خو ن آشامی پربر بریت کی ہولناک درندگی ساری دنیا کو دکھاتا رہا ‘ معصوم کمزور نہتے لوگوں پر گولیوں کی بارش کر تا رہا کو ئی اُس درندے سے پوچھے اگر تم اتنے ہی بہادر تھے تو افغانستان یا شام میں جاکر اپنی بہادری دکھاتے ‘ معصوم لوگ جو عبادت میں مصروف ہیں اُن بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو شہید کر کے تم نے کو نسی بہادری دکھائی ہے ایسی حرکت کو ئی جانور درندہ عفریت ہی کر سکتا ہے کو ئی انسان تو دور کی بات عام جانور بھی ایسی حرکت کے بارے میںسوچ نہیں سکتا انسانی تاریخ کے اِس سفاکیت پر مبنی واقع نے پوری دنیا کے امن کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے مغرب اور امریکہ بہادر جو کئی عشروں سے ایک ہی راگ الاپتا آرہا تھا کہ دہشت گردی اسلام کی کوکھ سے جنم لیتی ہے یا اسلامی تعلیمات سے دہشت گر د تیار ہو تے ہیں یہ بات جھوٹ ثابت ہوئی کہ ایسی سفاکیت تو کبھی ہو ئی ہی نہیں ‘مغرب کی منافقت دنیا نے اُس وقت بھی دیکھی جب مغربی ابلاغ امریکی چینلز نے فائرنگ قتل کے الفاظ استعمال کئے ‘ اُس سفید عفریت کو دہشت گردکا نام دینے سے گریز کیا مغرب امریکہ بہادر کی ڈھٹائی کا عالم ملاحظہ فرمائیں یہ واقعہ خدا نہ کرے اگر کسی مسلمان نے کیا ہوتا یا پس منظر میں کوئی مسلمان ملک ہو تا تو دنیا اِس طرح تماشائی بنتی ساری دنیا میں قیامت برپا ہو جاتی تھی ایک گھنٹے کے اندر اندر سیاسی سفارتی عسکری محاذوں پر زلزلہ آجاتا تھا کرہ ارض نے تھر تھرانہ شروع کر دینا تھا امریکہ بہادر نے بڑھکیں مارنی شروع کر دینی تھیں۔
بھارت اسرائیل کی بکواسیات نقطہ عروج پر پہنچ جاتی تھی اقوام متحدہ کے ایوانوں میں بھونچال آجاتا تھا مسلمانون پر کڑی پابندیوں کے نعرے اور بلند باگ دھمکیاں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آنے لگتی تھیں لیکن یہ سفاک درندہ تو سفید فام ہے جس کا تعلق پڑوسی ملک آسٹریلیا سے ہے جس کی ٹریننگ کسی مسلمانوں کے جہادی کیمپ میں نہیں ہوئی یہ تو مغرب کی جدید ترقی یافتہ تہذیب کی کوکھ سے برآمد ہوا ہے امریکہ بہادر اور مغرب جو دن رات مسلمان دہشت گرد کی جگالی کر تے تھے اب پریشان ہیں کہ ایسی درندگی تو کبھی مسلمانوں نے کی ہی نہیں جو اُن کے سفید فام درندے نے کی ہے اب مغرب اور امریکہ بہادر کو خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے ورنہ وہ جو دن رات اپنی نام نہاد ترقی اور تہذیب کا راگ الاپتے ہیں اُن کی تہذیب معاشرہ راکھ کا ڈھیر بن جائے گا اِس میں بھی قصور پاگل ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن سفید فام فرعونوں کا ہے جنہوں نے ماضی کے کئی سالوں سے سفید فام برتری کا راگ الاپا ہے۔
اِن لوگوں نے سفید فام برتری کے جو بیج بوئے تھے وہ اب تن آور پودے بن گئے ہیں اب یہ دردنے اُن کے معاشروں کو ہی راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے اب مغرب کو ماننا ہو گا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہو تا اگر مغرب نے سفید فام برتری کے اِس جن کو ابھی سے ہی بوتل میں قید نہ کیا تو مغرب اپنی بربادی کے لیے تیار ہو جائے کر ہ ارض پر طاقت نہیں محبت کی حکمرانی چاہیے کیونکہ امریکہ نے اپنا انجام طاقت کے باوجود افغانستان عراق اور عراق میں دیکھ لیا ہے کس طرح طاقت کے زعم میں آیا شکست خوردہ گیدڑ کی طرح بھاگا امریکہ کی فرعونیت چکنا چور ہو گئی کہ اس کے پاس سب سے بڑا اسلحہ خانہ ہے بارہ ہزار سے زائد ایٹم بم ہیں جو کرہ ارض کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتے ہیں میزائل ایکوریسی کی انتہا پرہیں امریکی سیٹلائیٹ زمین پر رینگتی چیونٹی کو بھی دیکھ لیتے ہیں شہنشاہ عالم کا فوجی بجٹ طاقت ور فوج اسلحے کے انبار لیکن شکست اس کا مقدر بنی فتح کا دارومدار اسلحے پر نہیں ایمان و جذبے پر ہے ابھی بھی اگر امریکہ بہادر اور مغرب نے آنکھیں نہ کھولیں سفید فام اِن درندوں کو کنٹرول نہ کیا تو ڈرو ان چنگاریوں سے جو کرہ ارض پر صدیوں سے اسلام کے نور کی شکل میں انسانوں کے باطن میں ٹمٹا رہی ہیں جو راکھ کے ڈھیر میں چنگاریوں کی طرح سلگ رہی ہیں اِن کی روشنیاں کب کہکشائوں میں بدلتی ہیں کب یہ آگ کے بھانبھڑ بن کر کرہ ارض پر پھیلے سفید فام دہشت گرد وں کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں نمازیوں دیوانوں کے جذبوں سے ڈرو جو دن رات شہادت کی آرزو کر تے ہیں۔