غزہ پٹی کے علاقے میں اسرائیلی فضائی حملے، صورتحال کشیدہ

Israeli Air Strike

Israeli Air Strike

غزہ پٹی (جیوڈیسک) اسرائیل نے پیر کے روز فلسطینی علاقے غزہ پٹی پر متعدد فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق یہ اقدامات گزشتہ روز غزہ پٹی سے ایک راکٹ داغے جانے کے جواب میں کیے گئے ہیں جس کی زد میں آ کر سات افراد زخمی ہوئے۔

پیر 25 مارچ کی صبح تل ابیب کے قریب گرنے والے ایک راکٹ کی زد میں آ کر سات لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ غزہ پٹی کے علاقے سے داغا گیا تھا۔ اس راکٹ حملے کے بعد اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی کے علاقے میں مختلف اہداف کو نشانہ بنایا جن میں حماس کا ایک دفتر بھی شامل ہے۔

فلسطینی حکام کی طرف سے پیر کی شب کہا گیا ہے کہ مصر نے ایک جنگ بندی معاہدہ کرایا ہے جس پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے تاہم اسرائیل کے جنوبی حصے میں اس کے باوجود راکٹ سائرن کی آوازیں سنائی دی ہیں۔

اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ سے کم از کم 30 راکٹ اسرائیل کی جانب داغے گئے۔ ان میں سے تقریباﹰ تمام کو ہی فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا اور وہ کھلے علاقے میں گِرے۔

راکٹ فائر کیے جانے سے تھوڑی دیر قبل ہی حماس نے کہا تھا کہ ایک فائر بندی معاہدے پر مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے عمل شروع ہو گیا ہے۔

پیر کو قبل ازیں اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی کے علاقے میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا جن میں حماس کے اُن رہنماؤں کا ایک دفتر بھی شامل ہے جو بظاہر روپوش ہیں۔

اسرائیل نے غزہ پٹی کے ساتھ ملنے والی سرحد پر اضافی زمینی فوج بھی تعینات کر دی ہے۔

حماس اور اسلامی جہاد نے فضائی حملوں کے جواب میں اسرائیل کے جنوبی حصے میں متعدد راکٹ داغے۔

جھڑپوں کا یہ سلسلہ تل ابیب کے قریب گرنے والے ایک راکٹ کے بعد شروع ہوا جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پٹی کے علاقے سے داغا گیا۔ اس کی زد میں آکر سات اسرائیلی زخمی ہوئے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے، ’’اسرائیل اسے برداشت نہیں کرے گا۔ میں اسے برداشت نہیں کروں گا۔ اسرائیل اس بے ہودہ جارحیت کا طاقت سے جواب دے گا۔‘‘ اپنا امریکا کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچنے والے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت اسرائیل کو کسی بھی بیرونی جارحیت سے تحفظ فراہم کرے گی۔

پیر 25 مارچ کی صبح تل ابیب کے قریب گرنے والے ایک راکٹ کی زد میں آ کر سات لوگ زخمی ہو گئے تھے۔

دوسری طرف حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام ’’جھکیں گے نہیں‘‘ اور حماس ’’دشمن کا مقابلہ کرے گی اگر وہ سُرخ لکیر عبور کرتا ہے تو۔‘‘

پیر 25 مارچ کو شروع ہونے والا تناؤ اسرائیل میں عام انتخابات سے محض دو ہفتے قبل ہی سامنے آیا ہے جہاں اسرائیلی وزیر اعظم کو انتخابات میں کامیابی کے لیے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلے ہی اس بات پر نہ صرف بائیں بلکہ دائیں بازو کے سیاستدانوں کی تنقید کی زد میں ہیں کہ وہ حماس کے معاملے میں نرمی برت رہے ہیں۔

فلسطینی تنظیم حماس سال 2007ء سے فلسطینی علاقے غزہ پٹی پر حکمران ہے۔ حماس کا سیاسی کے علاوہ مسلح دھڑا بھی ہے اور یہ گروپ یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اسلامک جہاد تاہم ایک اور چھوٹا مذہبی گروپ ہے جو غزہ کے علاقے میں سرگرم ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت اسرائیل کو کسی بھی بیرونی جارحیت سے تحفظ فراہم کرے گی۔

غزہ کے باسیوں نے گزشتہ ہفتے اس فلسطینی علاقے میں معاشی بحران کے تناظر میں حماس کے خلاف ایک مظاہرہ کیا تھا، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ غزہ پٹی میں حکمران حماس گروپ کو اسرائیل اور مصری پابندیوں کے سبب معیشت میں بہتری لانے کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے میں حکمران اس کے مخالف گروپ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بھی کئی ایک پابندیاں عائد ہیں۔