اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیاد پر 6 ہفتوں کے لیے درخواست ضمانت منظور کر لی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کهوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے 8 ہفتوں کے لیے ضمانت کی استدعا کی تاہم عدالت نے 6 ہفتوں کے لیے ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 50 ہزار روپے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی اور اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کی ضمانت کی مدت قابل توسیع ہے، اگر ضرورت پڑے تو ضمانت میں توسیع کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کی رہائی کے دن سے چھ ہفتے شمار ہوں گے۔
سابق وزیراعظم کی درخواست ضمانت پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب مظفر عباسی نے کھل کر مخالفت کی جب کہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے ضمانت کے حق میں دلائل مکمل کیے۔
سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل خواجہ حارث کو کہا ‘آپ نواز شریف کے علاج کے لیے ضمانت چاہتے ہیں، ہم پاکستان میں کسی بھی اسپتال میں ان کے علاج کا حکم جاری کردیتے ہیں’۔
چیف جسٹس نے کہا ‘ایک امکان ہے کہ نواز شریف کو کچھ ہفتوں کے لیے ضمانت دے دی جائے، بائی پاس بھی تین دن میں ہوجاتا ہے، دنیا کی بہترین دستیاب مشینیں پاکستان میں موجود اور اسپتال بھی موجود ہیں، ہم دو سے تین ہفتے دیں گے اس عرصے کے بعد آپ کو واپس جانا ہوگا، سوچ لیں’۔
خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کہیں نہیں جارہے ان کا پاسپورٹ عدالت میں موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے موکل کا تناؤ دور ہو، ٹرائل میں تو ویسے ہی تناؤ ہوتا ہے، ابھی تک جن کے ٹرائل نہیں ہوئے وہ بھی تناؤ میں ہیں اور اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ تناؤ ہے۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 8 ہفتوں کے لیے ضمانت کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘کیا 8 ہفتے کے بعد آپ واپس آ جائیں گے، 9 اپریل کو ہائیکورٹ میں آپ کی اپیل پر بھی سماعت ہے، اگر وہاں سے فیصلہ آپ کے خلاف آ جاتا ہے تو کیا کریں گے’۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا عدالت کو ضمانت دیتا ہوں ہائیکورٹ سے اتنی جلدی فیصلہ نہیں ہو سکتا، ابھی تک صرف نوٹس ہوئے ہیں جو مجھے موصول بھی نہیں ہوئے، جہاں تک علاج کا تعلق ہے میرے موکل کی زندگی داؤ پر ہے، علاج مکمل ہونے کے بعد خود کو عدالت کے حوالے کردیں گے۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا ‘جب کلثوم نواز زیر علاج تھیں تو کہا گیا وہ بیمار نہیں اور جب وہ فوت ہوگئیں تو کہا گیا وہ پہلے ہی مر گئی تھیں’۔
سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کے معالج ڈاکٹر لارنس کے خط کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ہمیں یہ بتائیں کہ ان کی جانب سے لکھے گئے خط کی کیا قانونی حیثیت ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں بلکہ عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، اس خط کے مصدقہ ہونے کا ثبوت نہیں، یہ خط ایک پرائیویٹ شخص نے دوسرے پرائیویٹ شخص کو لکھا ہے، یہ خط شواہد کے طور پر کیسے پیش ہوسکتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا میں اس خط پر انحصار نہیں کر رہا، نواز شریف کی صحت خراب ہونے پر ڈاکٹرز نے معائنہ کیا۔
چیس جسٹس نے کہا ‘رپورٹس بتاتی ہیں کہ نواز شریف کو دل کا عارضہ ہے تاہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اُن کی جان کو خطرہ ہے؟ بتائیں نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری سے صورتحال کیسے مختلف ہے، صحت کیسے بگڑ رہی ہے’۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کو 7 میڈیکل اسٹنٹس ڈالے جا چکے ہیں، انجائنا سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تمام میڈیکل بورڈز نے کہا ہے کہ نواز شریف کی انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘آپ نے بتانا ہے کہ نواز شریف کی زندگی کو کیا خطرات ہیں کہ ان کی ضمانت منظور کی جائے، کیا پاکستان کے کسی اسپتال کے ڈاکٹرز، سہولیات اور عملہ ایسا ہے کہ ان کا علاج ہوسکے۔
خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کے گردے کی بیماری تیسرے درجے کی ہے، ان کا بلڈ پریشر اور شوگر دل کی بیماری کے لیے مزید خطرناک ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ نواز شریف کے علاج کے لیے ضمانت چاہتے ہیں، ہم پاکستان میں کسی بھی اسپتال میں ان کے علاج کا حکم جاری کردیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر پٹیشن واپس لے لی تھی جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا اس لیے درخواست واپس لی گئی، سابق وزیراعظم کی صحت کا جائزہ لینے کیلئے 5 میڈیکل بورڈ بنے اور پانچوں بورڈز نے اسپتال داخل کرانے کی سفارش کی۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 30 جنوری کو پی آئی سی بورڈ نے بڑے میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز دی اور ایک سے زائد بیماریوں کے علاج کی سہولت دینے والے اسپتال میں داخلے کا کہا۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں احتساب عدالت کی جانب سے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں دی گئی 7 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔