عمران خان وزیر اعظم پاکستان نے خوش خبری سناتے ہوئے پاکستان کے عوام کو خبر دی ہے کہ کراچی سے دو سومیل دور گہرے سمندرمیں ایشیا کا سب سے بڑاتیل کا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ جس سے ملک میں معاشی انقلاب آئے گا۔اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ” اگر بستیوں کے لوگ کے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اوعرزمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے” (الاعراف:٦٩) مطلب کہ اگر لوگ اللہ کے احکا مات پر عمل کرتے تو اللہ آسمان سے رزق ناز ل کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔ یعنی آسمان سے پانی برستا ، ڈیموں میں پانی کو ذخیرہ کیا جاتا۔ زمین سے تیل سونا جیسی معددنیات نکلتی اور ملکوں میں خوشحالی ہوتی۔ کیااس سے یہ سمجھاجائے کہ شاید اللہ عمران خان سے راضی ہو گیا ہے؟ کیونکہ عمران خان نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جائے گی اور اس پر کچھ شروعات بھی کر دیں ہیں۔آہیے ،اللہ کی اپنے نیک بندوں پر مستقل رحمت کے اصول، پاکستان کے قیام کے بعدحکمرانوںکی اللہ کی رحمت سے ناشکری، یعنی وعدہ خلافی،ان پر مشکل وقت اور موجودہ حکومت پر کچھ تجزیہ کریں۔
ملت اسلامیہ بر صغیر کے رہنے والوں نے بت پرست ہندوئوں اور انگریزوں سے علیحدہ وطن کی مانگ اس لیے کی تھی کہ ہم وہاں اللہ کے حکم اور اسلامی روایات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔ ہم اپنے وطن میں مدینہ کے اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں گے۔ ہندوئوں اور انگریزوں کو یہ ناگوار تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے ہندوئوں نے بیانیہ جاری کیا کہ قومیں اوطان سے بنتیں ہیں۔ہندو مسلمان ایک قوم ہیں۔ اس لیے ہندوستان کی تقسیم قبول نہیں۔ کانگریسی مسلمان ،ہندوئوں کے فریب میں آ گئے ۔ دیو بند کے بزرگ رہنماحسین احمد مدنی نے قائد اعظم کی مخالفت کرتے ہوئے ، ہنددئوں کے بیانیہ میں ہاں میں ہاںملانے ، ان کو تقویت پہنچانے کے لیے قومیں اوطان سے بنتیں ہیں پر زبانی بیانیہ کے ساتھ ساتھ ایک عدد کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ اس پر گانگریسی مسلمان بھی دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ اس کے مقابلے میںقائد اعظم کے بیانے اور مسلم لیگ کی حمایت کرتے ہوئے، مولانا موددی نے اپنے رسالے ترجمان قرآن میں پے در پے قومیت پر مضامین لکھ کر ہنددئوں اور کانگریسی مسلمانوں کے نظریہ ،کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں کو رد کیا تھا ۔ مولانا موددی کے یہ مضمون ابھی تحریری شکل ” مسئلہ قومیت اور مسلمان” کتاب میں موجود ہیں۔ قائد اعظم نے مصور پاکستان علامہ شیخ محمد اقبال کے اس شعر کی تفسیر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ دوسری قومیں جس بھی نظریہ پر بنتی ہیںبنتی رہیں ۔ مسلم ملت تو مذہب اور ایک نظریہ کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ مسئلہ قومیت پرعلامہ اقبال اپنے شعر میں کہتے ہیں:۔ اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولۖ عاشمی
انگریزوںنے ہندستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی ۔اس لیے انگریز مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ہوئے ان کو علیحدہ وطن دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔مگر بانی پاکستان قائد اعظم نے ایک وکیل ہوتے ہوئے پر امن طریقے اور دلیل کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کو ایک کلمے” لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر اکٹھا کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انگریزوں اور ہندوئوں پر واضع کیا کہ ایک تو ہندو ایک بڑے عرصے سے ہندوستان میں اپنی مرکزی حکومت قائم نہیں کر سکے۔ وہ مختلف راجوڑوں میں بٹے رہے۔ اس لیے انہیں ایک مرکز کے تحت حکومت چلانے کا تجربہ نہیں۔ جبکہ مسلمان پچھلے بارہ سو سال سے ہندوستان میں حکومت کر تے رہے۔ ان کو حکومت چلانے کاتجربہ ہے۔ دوسرا انگریزوں نے ہندوستان میں مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی لہٰذا جاتے وقت مسلمانوں کو ہی حکومت حوالے کرنا چاہیے۔ تیسرا ہندوستان میں ایک قوم نہیں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان رہتی ہیں ۔ ان کا مذہب الگ، ہندوبتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ان کے رہن سہن الگ، تہذیب تمدن اور ثقافت الگ الگ ہیں،ان کے کھانے پینے کے طریقے الگ۔ ان کی ہیرو الگ،ان کی تاریخ الگ۔ جب تقسیم کے وقت ہندوئوں اور انگریزوں نے قائد اعظم کی یہ بات نہیں مانی تو قائد اعظم نے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم اور ایک توحید کے کلمے کی بنیاد پرپر جمع کیا۔مسلمانان ِبرصغیر کو یہ یہ نعرے دیے۔پاکستان کا مطلب کیا” لا الہ الا اللہ۔ لے کے رہیں پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے برصغیر کے مسلمان قائد اعظم کی پکار پر جمع ہو گئے۔ اسلام کے شیدائی نے، جن کے صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا انہوں نے بھی قیام پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ پھر ٢٣ مارچ کو لاہو ر منٹو پارک، موجود ہ مینار پاکستان پارک میں جمع ہوئے اور قرارد مقاصد پاس کی۔ جسے ہندو پریس نے تعصب میں قراراداد پاکستان مشہور کیا تھا۔ اسی قرارداد کی بنیاد پر پاکستان بنا۔ پاکستانی قوم ٢٣ مارچ کو اسی لیے یوم پاکستان مناتے ہیں۔
صاحبو١ ہم نے پاکستان اللہ کے ساتھ اس وعدے پر حاصل کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الااللہ”یعنی کوئی نہیں اللہ کے سوا۔ جس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تو ہمیں آزاد خطہ عطا فرما ۔ ہم اس آزاد خطہ زمین پر رہنے والے تیرے بندے تیرا کلمہ بلند کریں گے۔اس پر مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں گے۔ جس کو اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلہ اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی آخری کتاب سے ہدایت لے کر اپنی آخری امت کے لیے نمونے کے طور پر قائم کیا تھا۔ پھرخلفائے راشدین نے اس کوکامیابی سے چلا کر مسلمان حکمرانوں کے لیے ایک مثال قائم کی تھی۔پاکستان سمیت امت مسلمہ ایک عرصہ سے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کوترستے رہتے ہیں۔ تاریخ میں قائد اعظم نے اس میں رنگ بھر کر پاکستان قائم کیا۔جب مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم کی قیادت میں اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی مستقل سنت کہ لوگ اللہ کے احکامات کے مطابق مانگیں تو اللہ ضرور مدد کرتا ہے۔ جب برصغیر کے مسلمانوں نے لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگایا تو اللہ نے ہنددئوں اور انگریزوں کی شدید مخالفت کے باجود مثل مدینہ ریاست تشتری میں رکھ کر مسلماناں ِبرصغیر کو پیش کر دی۔قائد اعظم نے توپاکستان بننے کے بعد اپنے اللہ سے وعدے کے مطابق نو مسلم اسکالر علامہ اسد کو اسلامی نظام حیات پر قانون سازی پر لگا یا تھا۔
قائد اعظم کو اللہ نے جلد ہی اپنے پاس بلالیا۔پھر حکومت میں موجود کیمونسٹ ، قادیانی اور سیکولر لابی نے علامہ اسد کو اس کام سے ہٹاکر بیرون ملک سفیر بنا دیا۔جب حکمرانوں نے اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے کی خلاف وردی کی تو اللہ نے بھی انہیں بلا دیا۔ ١٩٥٦ء کا اسلامی آئین منظور ہوا تو ڈکٹیٹر ایوب خان نے اس منسوخ کر کے پاکستان میںپہلا مارشل لا لگا دیا۔ جب عوام نے اسے اقتدار سے ہٹایا تو دوسرے ڈکٹیٹر شرابی یخییٰ خان کو اقتدار دے گیا۔ اس کے دور میں ہی بھارت نے قائد اعظم کے دو قومی نظریہ والے پاکستان کو بنگلہ قومیت کے پرچارک دشمن ِپاکستان شیخ مجیب کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کر کے قوم پرست بنگلہ دیش بنا دیا۔ اس سارے عرصہ میںاسلام دشمنوں لابی نے پاکستان کا اسلامی آئین نہیں بننے دیا۔ قائد اعظم کے وژن کے اصلی جانشین پاکستان کے علما ، جس کا ہراول دستہ جماعت اسلامی ہے، نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ جد وجہد کر کے پہلے قرارداد پاکستان کو آئین کا مستقل حصہ بنایا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں ١٩٧٣ء کا اسلامی آئین بنا۔ مگر اس کے باوجودروشن خیال بھٹو صاحب نے قائد اعظمکے اسلامی وژن سے بغاوت کی روش اختیار کی۔
پاکستان کو مدینہ کی فلاحی ریاست کیا بناتا، اسلام میں پیوند لگاتے ہوئے اسلامی سوشلزم کے تحت ملک کے پانچ سال ضائع کیے۔اب بھی پیپلز پارٹی اپنے روشن خیال ایجنڈے پر قائم ہے۔ ضیاالحق ڈکٹیٹر خود تو اسلام پسند تھا۔کچھ محکموں کو اسلامی رنگ میں بھی رنگا ۔مگر جب تک اس کام کے لیے پوری ٹیم نہ ہوایک آدمی کے مخلص ہونے سے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم نہیں ہو سکتی۔ نون لیگ کو بھی اللہ نے تین دفعہ وقت دیا۔ اس نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جو کرپشن کی ہے اس سے واپس لے کر پاکستان کے خزانے میں داخل کروں گا۔نواز شریف مدینہ کی فلاحی ریاست کیا قائم کرتا الٹا قائد اعظم کے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی۔بھارت مشرقی پاکستان کی طرح پاکستان کے دس ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۔ نواز شریف امریکی کی پرانی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ الو پیاز کی تجارت کی کرتا رہا۔ پورے دور میں ملک کی مسلح افواج سے لڑتا رہا۔ اب بھی اپنے رویہ پر پشیمان نہیں۔ملک کی عدالت سے کرپشن میں سزا ملنے اور قید کے باجود، کہتا کہ میں ایک پائی کی کرپشن نہیں کی۔ دل کی بیماری کی وجہ سے عدالت نے علاج تک ضمانت منظور کی۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کے ساتھ غداری کی اور کرپشن میں نام پیدا کیا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پاکستان میںمارشل لا لگا کر نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کیا۔پیپلز پارٹی کی طرح ملک کو روشن خیالی کے ایجنڈے پر لگا دیا۔ڈکٹیٹر مشرف نے پاکستان کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی کی کہ امریکا کے ساتھ مل کر پاکستان کو دوسروں کی جنگ میں ملوث کر دیا۔
پاکستان کے دشمنوں کے مطابق پاکستانی فوج کو کرایا کی فوج بنا دیا۔ اس کے دور میں مغربی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں نے ملک میں دہشت گردی کو عام کیا۔بلیک واٹر اور ٹی ٹی پی نے ملک کی اینٹ اینٹ بجا دی۔مشرف ڈکٹیٹر نے بھی ملک کو اسلام سے دور لے جانے کی کوشش کی۔بے نظیر صاحبہ کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری صاحب کو حادثاتی پر حکومت ملی۔وہ بھی پیپلز پارٹی کے روشن خیال ایجنڈے پر چلتے رہے۔ پھراس کے بعد پی ٹی آئی میدان میں آئی۔عمران خان نے کہا کہ دونوں پارٹیوں نے اپنی اپنی باریاں بانٹی ہوئی ہیں۔یہ دونوں پارٹیاں کرپشن میں غرق ہیں۔ میں غریب عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس غریب عوام کے خزانے میں داخل کروں گا۔ میں علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست بنائوں گا۔ عوام نے عمران خان کو موقعہ دیا۔ اب عمران ملکِ پاکستان پر حکومت کر رہا ہے ۔جب قائد اعظم نے اللہ سے مدینہ کی فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے ایک خطہ زمین مانگا تھاتو اللہ نے مثل مدینہ اسلامی ریاست تشتری میں رکھ کر پیش کر دی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جلد انہیں اپنی پاس بلا لیا۔
قائد اعظم تو یقیناً ا للہ سے اِس کا اَجر پائیں گے۔ مگر ان کی مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے قائد اعظم کے ساتھ اور اپنے اللہ کے ساتھ بے وفائی کی اور ملک میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم نہیں کی۔ اب عمران خان نے بھی پاکستان کے کرڑوں عوام کے سامنے پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ کچھ وعدے پورے کرنے شروع بھی کیے ہیں۔ کرپشن میں ایک پارٹی کا سربراہ قید کاٹ رہا ہے۔ دوسری پارٹی کے سربراہ پر شکنجہ سخت ہو رہا ہے۔٤٣٦ آف شور کمپنیوں والوں کامقدمہ سپریم کورٹ میں لگا ہوا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے زور دیا ہے کہ صرف ایک کو سزا ہوئی ہے۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ باقیوں کے مقدموں پر پیش رفت شروع کی جائے۔ شاید اللہ نے اپنی مستقل سنت پر عمل کرتے ہوئے کراچی سے سمندرکے دو سو میل کے فاصلے پر ایشیا کے سب سے بڑے تیل کے خزانے عمران خان کے حوالے کر دیے ہیں۔اللہ کرے عمران خان مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی طرف اپنی رفتار کو تیز تر کرے اور اللہ کے خزانوں سے پاکستان کے عوام مستفید ہوں۔
عمران خان صاحب،آپ نے مدنیہ کی اسلامی ریاست اور کرپشن سے پاک ریاست کا وعدہ پاکستان کے عوام اور اپنے اللہ سے کر رکھا ہے۔ آپ کو چاہیے اپنی قابینہ کی اسلامی خطوط پر تربیت کریں جو اسلام سے مخلص نہیں ان کو فارغ کریں۔ پھر اللہ کی رحمت پاکستان پر نازل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی مستقل سنت ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکامات پر عمل کرتے تو اللہ آسمان سے رزق نازک کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔ اللہ ہمیں وہ دن ضرور دکھائے آمین۔