کسی بھی مذہب میں خوشی کا کوئی تہوار ہو، اس میں اپنے پرائے سمیت تمام مذاہب سے متعلق دوست احباب شریک ہوکر اُنہیں مبارک باد دیتے ہیں۔ یہ ایک عمومی رجحان سا بن گیا ہے اور غیر مسلم ممالک کے موجودہ معاشرے میں تفریق کم ہوتی جارہی ہے کہ کون کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت بھی بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو برادری کے ساتھ ان کے مذہبی تہواروں کو اظہار یکجہتی کے تحت مناتی ہے۔ یہ مظاہر ہم ان کے ہر تہوار میں دیکھتے ہیں، کیونکہ بھارتی مصنوعی ثقافت ہمارے گھروں میں جزولاینفک بن چکی ہے۔ کیبل آپریٹرز کی لالچ کی وجہ سے اس میٹھے زہر کے لاکھوں خاندان عادی ہو چکے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھارتی فلموں، ڈراموں کو نجی چینلوں تک رسائی دے کر اربوں روپے کا نقصان بھی کیا۔
بھارت میں گذشتہ دنوں ہندو برادری کا تہوار ”ہولی” منایا گیا۔ ویسے تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں ہندو اقلیت میں تھے یا اکثریت میں، تہوار کو ہندو روایات کے مطابق مناتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں اور حکومت کی جانب سے ہندوئوں کو ہولی کی مبارک باد بھی دی گئی۔ گذشتہ ہولی کے تہوار میں جب کینیڈا کے وزیراعظم نے ہندووں کو ”ہولی مبارک” کا ٹویٹر پر پیغام دیا تھا تو ہندوانتہا پسندوں نے لفظ ”مبارک” کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ لفظ مسلمانوں کا ہے، کیونکہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے، لہٰذا کینیڈا کے وزیراعظم کو ہولی مبارک کہنے کے بجائے ہیپی ہولی کہنا چاہیے تھا۔ ہندو انتہا پسندوں کی عجیب مضحکہ خیز منطق تھی۔ اسلام و قرآن کریم میں ”شہید” خالصتاً مسلم مومن مجاہدین کے لیے مختص ہے۔ خالصتاً عربی اور قرآن کریم کی آیات میں ہے، لیکن ہندو انتہا پسند ”شہید” کا لفظ تو بڑی بے شرمی سے اپنے ہلاک ہونے والوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ان کے لیے دوسرا لفظ استعمال کرنا تو دُور ان میں ”شہید” کی معنویت کا تصور تک نہیں۔
شہادت تو وہ عظیم رتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اس کے پیروکار مجاہدین کے لیے تاقیامت مختص کردیا ہے، دوسرے مذاہب کو شہید کے بجائے اپنی مذہبی اقدار کے مطابق دوسرا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ کم ازکم ہندو انتہاپسندوں کے لیے تو شہادت جیسا مقدس و اعلیٰ استعارہ استعمال کرنا چوری اوپر سے سینہ زوری کے مترادف ہے۔ شہید کی مکمل تشریح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے، اس لیے کسی قسم کا ابہام نہیں رہ جاتا کہ شہادت و شہید صرف و صرف اسلامی اصطلاح ہے۔ کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو خصوصاً ہندو انتہا پسندوں کو اپنے ہلاک ہونے والوں کے لیے سنسکرت یا ہندی میں سے شہید کی جگہ دوسرا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہندو انتہاپسند اپنے ہلاک ہونے والوں کے لیے کیا کہیں، لیکن کم ازکم ”شہید” جیسا عظمتوں والا لفظ ہرگز استعمال نہ کریں۔
ہندو انتہا پسندوں اور غیر مسلم ”شہید” کے مقام سے جس طرح ناواقف ہیں، اس طرح اس لفظ کی حرمت سے بھی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس بار پھر بھارت میں ”ہولی کا تہوار” ہندو انتہا پسندوں نے منفرد انداز میں منایا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں نے بھی ہندو روایات کے مطابق انہیں ‘ہیپی ہولی’ کہا۔ بھارت میں تو لاکھوں مسلمانوں نے ہندوئوں کے ساتھ ہولی کا تہوار بھی منایا، لیکن یہ سب کچھ ہندو انتہا پسندوں کے لیے ناقابل برداشت رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور ‘دلت’ ہندوئوں کے ساتھ چوتھے درجے کے شہری سا گھنائونا برتائو کیا جاتا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں، یا پھر بھارت کی انتہا پسند ہندو ریاستوں پر کوئی الزام ہے، بلکہ انتہا پسندوں کے اس طرح کے شرم ناک کرداروں کو خود اپوزیشن جماعتیں شدید تنقید کا نشانہ بناتی نظر آتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ہولناک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارت میں 20 کے قریب ہندو انتہا پسندوں نے ہولی کے موقع پر گروگرام کے گاؤں دھامس پور میں مسلم گھرانے (محمد دلشاد کے گھر) پر ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کیا۔ گھر کے باہر کھڑی 3 موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچایا۔ بعدازاں انتہا پسند گھر میں داخل ہوئے اور وہاں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور لاٹھی و ہاکی برسائیں۔ دلشاد نے اپنی شکایت میں کہا کہ ”حملہ آوروں نے ہمارے گھر پر پتھراؤ کیا، ہماری گاڑی توڑی اور گھر میں داخل ہوئے، ہم نے اپنی بیٹیوں اور نوجوان بچیوں کی عزت بچانے کے لیے انہیں دوسری منزل پر بھیج دیا تھا، ہم نے کئی مرتبہ پولیس کو بلانے کی بھی کوشش کی، تاہم وہ تب ہی آئی جب حملہ آور جاچکے تھے۔” اس حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 12 افراد زخمی ہوئے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں کہ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو پاکستان جانے کا کہتے ہیں، کشمیری محنت کشوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، تعلیمی اداروں سے انہیں بے دخل کرنے جیسے ان گنت واقعات ہیں جو بارہا میڈیا میں رپورٹ ہورہے ہیں، لیکن اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے مظالم پر آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوںکا جینا حرام کیا جارہا ہے۔ اسلامو فوبیا کے تحت مسلمانوں کی مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد پوری دنیا سفید فام انتہا پسندی پر خواب غفلت سے اٹھی، لیکن اس کے کچھ دن بعد ہی برطانیہ کے شہر برمنگھم کی پانچ مساجد پر رات کے وقت ہتھوڑے سے حملہ کرکے کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر پانچوں حملے ایک ہی سلسلے کی کڑی دکھائی دے رہے ہیں۔ برمنگھم لندن کے بعد برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے اور وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق برمنگھم کے قریباً 22 فیصد شہری مسلمان ہیں۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندوں نے تو عرصہ دراز سے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ان کی عزت و ناموس اور چادر و چہار دیواری کے تقدس کو بھارت ہی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی پامال کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ بھارت میں انتخابات 11اپریل سے27 مئی تک مختلف مراحل میں مکمل ہوں گے، بھارتی انتہاپسندوں کے مہاراج اپنی جنونیت میں دیکھ بھی نہیں پارہے کہ انہوں نے اپنا چہرے کو رنگ نہیں بلکہ مذہبی اقلیتوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔
مہاراج آپ کے منہ پر ہولی کے رنگ نہیں بلکہ انسانیت کا خون لگا ہوا ہے۔ خوشیوں کا جو بھی تہوار کسی بھی ملک میں ہو، اس کا کوئی بھی نام بھی ہو، لیکن اُس کا مقصد اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنا ہوتا ہے، تب ہی خوشی کا رنگ دوبالا ہوتا ہے۔ خوشی و مسرت کو انتہاپسندی کے میزان میں مت تولیں۔ انتہا پسندی کا وزن ہمیشہ خوشی کے ایک چھوٹے سے لمحے کے مقابل کم ہی پڑے گا۔ میزان میں دنیا بھر کی انتہا پسندی ایک طرف اور خوشی و مسرت کا چھوٹا سا چھوٹا لمحہ دوسرے پلڑے میں رکھ دیں۔ انتہا پسندی کا پلڑا کبھی بھاری نہیں ہوسکتا۔ انتہاپسندی کا کوئی بھی رنگ، نسل، مذہب و عقیدہ ہو، اُسے بالآخر ناکام ہونا پڑتا ہے۔