کئی برسوں سے ایسی رپورٹیں ملتی رہی ہیں کہ مونگ پھلی کے مکھن یا ’پی نٹ بٹر‘ سے الزائمر کی بیماری کی تشخیص ممکن ہے۔ مگر یہ عمل اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ اس تشخیصی عمل کے دوران مریض کو مونگ پھلی کا مکھن سونگھایا جاتا ہے۔
الزائمر بڑھاپے کے باعث پیدا ہونے والا ایک دماغی مرض ہے، جس کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ یہ مرض مریض کی ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے اور متاثرہ فرد کی گفتار، ادراک اور سوجھ بوجھ کی اہلیت بتدریج معدوم پڑتی جاتی ہے۔
’پی نٹ بٹر ٹیسٹ‘ ہے کیا؟
اس ٹیسٹ میں مریض کومونگ پھلی کے مکھن کی خوشبو سونگھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ممکنہ مریض اپنے دائیں نتھنے سے اس مکھن کی خوشبو سونگھے لیکن اس دوران اپنے بائیں نتھنے کو بند رکھے۔ پھر اس عمل کو دہرایا جاتا ہے اور بائیں نتھنے سے اس مکھن کی خوشبو سونگھتے وقت دائیں نتھنے کو بند رکھا جاتا ہے۔ تیس سینٹی میٹر کے فاصلے سے مریض اس مکھن کی خوشبو کو سونگھنے کے قابل ہوتا ہے اور ٹیسٹ کے دوران ڈاکٹر یہ فاصلہ مسلسل کم کرتے کرتے ایک سینٹی میٹر تک لے آتے ہیں۔ یہ تجربہ یہ طے کرنے میں مدد دیتا ہے کہ متعلقہ فرد اس مکھن کی خوشبو کو کتنے فاصلے تک سونگھ سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سن 2013ء میں ہی اس سلسلے میں ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج سے ثابت ہو گا تھا، ’’الزائمرکے مریضوں کی سونگھنے کی صلاحیت نہایت کمزور ہوتی ہے۔ طبی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ دماغ کا بائیں طرف کا اوپر والا حصہ الزائمر کی وجہ سے آدھا متاثر ہو جاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہی حصہ ہے، جو کسی بھی انسان کی سونگھنے کی حس کو کنٹرول کرتا ہے۔
جرمنی کی ڈؤسبرگ ایسن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رشارڈ ڈوڈیل کا کہنا ہے، ’’یہ تشخیصی طریقہ کار بھی حتمی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجربہ صرف بانوے افراد پر کیا گیا، جو تعداد کے لحاظ سے بالکل ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس ٹیسٹ کے لیے ’پی نٹ بٹر‘ کی کون سی قسم استعمال کی گئی، کیونکہ ایسے مختلف اقسام کے مکھن سے حاصل ہونے والے نتائج بھی متنوع ہوتے ہیں۔‘‘
الزائمر کے مریض افراد کے لیے ایسے انسانوں کے نام یاد رکھنا جنہیں وہ اچھی طرح جانتے ہوں اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے ناموں کو ذہن میں رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ اکثر ایسے واقعات بھی بھول جاتے ہیں، جو ماضی قریب میں یا کچھ دیر پہلے ہی پیش آئے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کسی کے ساتھ اپنی طے شدہ ملاقات کا دن اور وقت یاد رکھنا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے اور اس میں بھی انہیں دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ایسے متاثرہ انسانوں کو کہیں جاتے ہوئے رستہ تلاش کرنے میں بھی دقت پیش آتی ہے۔ مزید یہ کہ جوں جوں یہ مرض شدید ہوتا جاتا ہے، ان مریضوں کے مزاج، جذبات اور شخصیت میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ کبھی دوسروں سے بہت زیادہ میل جول رکھنے والے رہے ہوتے ہیں، وہ چڑچڑے اور غیرفعال ہو کر اپنے اندر ہی بند ہوکر رہ جاتے ہیں۔
کئی جائزے یہ ثابت کرتے ہیں کہ سبزیوں اور ان سے حاصل ہونے والی چکنائی کے علاوہ سلاد کا استعمال بھی خون کی نالیوں پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جس قدر کوئی شخص فالج یا دل کے امراض سے محفوظ ہو گا، الزائمر کے خطرات بھی اتنے ہی کم ہوں گے۔ اپنے جسم کو حرکت دینا یا باقاعدگی سے ورزش کرنا بہت سی بیماریوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان میں فشار خون کی شکایت، ذیابیطس اور فالج اہم ترین طبی مسائل ہیں۔ اسی طرح باقاعدگی سے ورزش کرنا بھی الزائمر کے خلاف ایک بہترین ہتھیار ہو سکتا ہے کیونکہ ورزش کرنے سے جسم تندرست رہتا ہے اور ذہنی صلاحیت بڑھتی ہے۔
اگر کسی انسان کا وزن ضرورت سے زیادہ ہو، تو اسے فوری طور پر وزن میں کمی کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے صحت مند غذا اور ورزش لازمی ہیں۔ ورزش کرنے سے صرف جسم میں چربی ہی کم نہیں ہوتی بلکہ دوران خون اور انہضام کے نظاموں کی کارکردگی بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ تمباکو نوشی اعصاب کو متاثر کرنے والی ایک زہریلی عادت ہے۔ تمباکو میں نکوٹین دوران خون کے مسائل کا باعث بنتی ہے۔ ذہن کو مصروف رکھنے سے دماغ بھی متحرک رہتا ہے۔ کتابیں پڑھنے، چیزوں کو یاد کرنے اور پہیلیاں بوجھنے جیسی مصروفیات کو بھی ذہن کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سماجی رابطے اور دوسروں انسانوں سے میل جول بھی کسی بھی انسان کی ذہنی صحت پر مثبت اثرات چھوڑتے ہیں۔