جنیوا (جیوڈیسک) اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خوفناک قتل کے مقدمے میں گیارہ مشتبہ ملزمان کے خلاف سعودی عرب میں کی جانے والی عدالتی سماعت کو پبلک کیا جائے۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کی ایک اعلیٰ اہلکار اور انسانی حقوق کی ماہر نے آج مطالبہ کیا کہ قدامت پسند عرب بادشاہت سعودی عرب میں اس قتل کے 11 مشتبہ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی جس راز داری سے کی جا رہی ہے، وہ بین الاقوامی معیارات سے قطعاﹰ مطابقت نہیں رکھتی اور یہ سماعت خفیہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بات اقوام متحدہ کی ماورائے عدالت انسانی ہلاکتوں کے موضوع پر خصوصی وقائع نگار ایگنیس کالامارد نے جنیوا سے اپنے جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان میں کہی۔ ایگنیس کالامارد اس بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کی سربراہ بھی ہیں، جو گزشتہ برس اکتوبر میں ترک شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ریاض حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کی چھان بین کر رہی ہے۔
کالامارد نے سعودی عرب کی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ان تمام 10 مشتبہ ملزمان کے نام بھی جاری کرے جنہیں اس قتل کے بعد شروع میں ہی گرفتار کر لیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتائے کہ ان دس مشتبہ ملزمان کا کیا بنا۔
ایگنیس کالامارد نے اپنے اس بیان میں کہا، ’’یہ سمجھتے ہوئے سعودی حکومت شدید غلطی کر رہی ہے کہ اس مقدمے کی اس طرح کارروائی، جیسے وہ اب تک کی جا رہی ہے، بین الاقوامی برادری کو مطمئن کر دے گی۔‘‘
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی کے اب تک معلوم طریقہ کار کے تحت نہ تو مشتبہ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کو کسی بھی طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو ان نتائج کے عالمی معیار کے مطابق ہونے کے بارے میں مطمئن کیا جا سکتا ہے، جو اس مقدمے کے اختتام پر حاصل کیے جائیں گے۔
جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں سعودی دفتر استغاثہ نے گزشتہ برس نومبر میں کہا تھا کہ اس قتل کے 11 مشتبہ ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔ ان ملزمان کے نام بھی ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔
ان ملزمان میں مبینہ طور پر پانچ ایسے مشتبہ افراد بھی شامل ہیں، جنہیں ممکنہ طور پر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ کل گیارہ میں سے ان پانچ ملزمان پر یہ الزامات ہیں کہ انہوں نے یا تو جمال خاشقجی کے قتل کا براہ راست حکم دیا تھا یا پھر وہ ذاتی طور پر اس خوفناک جرم کے مرتکب ہوئے تھے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک سابق اعلیٰ مشیر سعود القحطانی کو اسی قتل کے بعد ان کے عہدے سے برطرف بھی کر دیا گیا تھا۔
وہ ان گیارہ مشتبہ مزمان میں شامل نہیں ہیں۔ جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے اس بارے میں گزشتہ اتوار کو روئٹرز کو بتایا تھا کہ ریاض حکومت نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس قتل کے مجرمان کو سزائیں دے گی۔ لیکن اس کے باوجود اب تک اس مقدمے کی کارروائی کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔