اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں وفاقی تفتیشی ادارے ایف آئی اے کی طرف سے ملکی صحافیوں اور سیاستدانوں کے خلاف سائبر کرائمز کے حوالے سے تفتیش کی خبروں نے ملک کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کی سائبر کرائمز برانچ نے چھ صحافیوں اور کچھ سیاسی جماعتوں کے خلاف انکوائریز کی سفارش کی ہے۔ ایف آئی اے کے ایک داخلی لیکن خفیہ خط میں، جو اس ایجنسی کے متعلقہ افسران کو حال ہی میں لکھا گیا، چھ صحافیوں کے ناموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں مرتضیٰ سولنگی، مطیع اللہ جان، اعزاز سید، عمار مسعود اور ہالینڈ میں مقیم پاکستانی احمد وقاص گورایہ بھی شامل ہیں۔
اسی خط میں مجلس وحدت المسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، حزب التحریر پاکستان اور تعمیرِ وطن پارٹی پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان تنظیموں اور جماعتوں کے ارکان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے گزشتہ دورہ پاکستان کے خلاف انتہائی متحرک پائے گئے تھے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ان سب کے خلاف انکوائریز درج کرائی جائیں اور پیش رفت رپورٹ ایف آئی اے کے ایک افسر ایاز خان کو جمع کرائی جائے۔
سیاستدانوں اور صحافیوں نے اس خط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آزادی رائے کو دبانے کی ایک اور کوشش ہے۔ معروف صحافی مطیع اللہ جان نے اس خط کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مجھے اب تک ایف آئی اے کی طرف سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ میرے خیال میں یہ ان کا کوئی اندرونی خط تھا۔ اگر ’ڈان‘ نے چھاپا ہے تو ممکن ہے کہ انہوں نے اس کی تحیقق کی ہو۔ بہرحال یہ بڑی ہی افسوناک بات ہے کہ جمال خاشقجی کی تصویر لگانے سے سعودی ولی عہد کو شرمندگی ہوئی۔ ہم نے تو صرف فیس بک پر اپنی ’ڈی پی‘ کے طور پر خاشقجی کی تصویر لگائی تھی اور اس کے قتل کی شفاف چھان بین کا مطالبہ کیا تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پہلے ہی میڈیا پر پابندیاں ہیں، ’’اخبارات میں خبریں سنسر ہو رہی ہیں۔ کالم بھی ایڈیٹ ہو رہے ہیں۔ اور اب یہ حال ہے کہ ہم اپنے نقطہء نظر کا اظہار بھی نہیں کر سکتے ۔ ہم نے صرف اپنی کمیونٹی کے ایک فرد کے قتل کے خلاف اظہار یکجہتی کیا تھا، جس کی خود ریاض حکومت بھی تفتیش کر رہی ہے۔ اس میں شرمندگی کی بات کہاں سے آ گئی؟ اب ایسا لگتا ہے کہ ہم جیسے اس ملک میں پیسے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
سعودی ولی عہد نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، جب کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بھی قرضہ دیا ہے۔ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اسی سرمائے کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کی آزادی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کرائے کے سپاہی بن چکے ہیں۔ چونکہ سعودی عرب ہمیں رقوم دے رہا ہے، اس لیے ہم ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگا رہے ہیں، جو ملکی آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سویلین مارشل لاء کی طرف جا رہی ہے۔ اس نے تمام آزادیاں ختم کر دی ہیں اور اب سوشل میڈیا پر رہ جانے والی تھوڑی سے آزادی بھی ختم کی جا رہی ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک بات ہے۔‘‘
پاکستان پر اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے پہلے ہی بہت تنقید کی جاتی ہے۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں کے خیال میں ملکی میڈیا کو مختلف طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ کالم نگار عمار مسعود کا کہنا ہے کہ اب ایف آئی اے کی تحقیقات سے ملک کی مزید جگ ہنسائی ہو گی۔
انہوں نے کہا، ’’اگر دنیا کو یہ پتہ چلے گا کہ یہ تفتیش اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ہم نے صرف فیس بک پر اپنی ڈی پی کی جگہ جمال خاشقجی کی تصویریں لگا دی تھیں، تو وہ ہم پر ہنسے گی۔ ملک میں پہلے ہی جبر کا ماحول ہے۔ ستر سے زائد چینل پی ٹی وی بن چکے ہیں۔آپ ٹی وی پر بات نہیں کر سکتے۔ اخبار میں کالم نہیں لکھ سکتے اور اب جو تھوڑی بہت جگہ سوشل میڈیا پر ہے بھی، وہ بھی ختم ہونے جا رہی ہے۔‘‘
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
عمار مسعود کا کہنا تھا کہ وہ ان باتوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں، ’’ہم اس کے خلاف بھر پور قانونی جنگ لڑیں گے۔ اس کو ہم صحافیوں کی تنظیموں کے سامنے بھی رکھیں گے اور بین الاقوامی تنظیموں سے بھی رابطہ کریں گے۔‘‘
ادھر مجلس وحدت المسلمین کے رہنما ناصر شیرازی کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورے کے وقت بھی کئی طرح کی پابندیاں لگائی گئی تھیں، ’’لوگ اس دورے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں کسی بھی طرح کی اجازت نہیں دی گئی، جو آئین کی سراسر منافی ہے۔ لوگوں نے پھر بھی سوشل میڈیا پر کسی حد تک اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اب ایک مخصوص لابی ایسے پاکستانیوں کے خلاف کام کرنا چاہتی ہے، جو قابل مذمت ہے۔‘‘
دوسری طرف حکمران جماعت پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات حکومت کے خلاف سازش ہیں۔ پارٹی کے سینیئر رہنما ظفر علی شاہ نے اس موضوع پر بات چیت میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ بیوروکریسی کی طرف سے ہماری حکومت کے خلاف سازش ہے۔ اس میں وزیر اعظم عمران خان کی مرضی شامل نہیں۔ بیوروکریسی انہیں اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے۔ ہم جمہوری انداز میں اقتدار میں آئے ہیں اور سویلین مارشل لاء کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
اس موضوع پر ڈی ڈبلیو نے متعدد مرتبہ حکومت اور ایف آئی اے کا موقف جاننے کے لیے حکام سے رابطے کیے لیکن نہ تو ٹیلی فون کالوں کا کوئی جواب دیا گیا اور نہ ہی تحریری طور پر بھیجے گئے سوالات کا۔