امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرکے مشرق وسطی میں دوبارہ ایک نئے تنازع کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ اسرائیل نے شام کے اس علاقے پر1967کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور 1981میں صہیونی ریاست میں غاصبانہ طور پر ضم کرلیا تھا ۔ لیکن اسرائیل کے اس ا قدام کو اقوام متحدہ سمیت عالمی برداری نے تسلیم نہیں کیا ۔ آج بھی امریکا کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کی قانونی حیثیت کو تسلیم کے باوجود گولان کی پہاڑیاں مقبوضہ علاقہ ہی تصور کئے جاتے ہیں۔ امریکی صدر کے اس اقدام کو امریکن کانگریس کے دونوں ایوانوں سے توثیق بھی کرایا گیا۔ایک بل کے ذریعے مقبوضہ علاقے کو پہلی مرتبہ ” کنٹرول ” علاقے قرار دے کر اسرائیل کی ملکیت قرار دے دیا گیا ۔ 2017 میں امریکہ نے سرکاری طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور 2018 میں تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا تھا۔گولان کی پہاڑیاں 1200کلومیٹر پر میحط عرب سرزمین ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحدی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے ایک جانب لبنان اور دوسری جانب اردن کی سرحد بھی لگتی ہے۔شام میں اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر گئیر پیڈرسن نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ سکیورٹی کونسل اس پر بہت واضح ہے کہ گولان کی پہاڑیاں شامی علاقہ ہے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق یہ شامی کی سرحدی سا لمیت کا معاملہ ہے۔ گزشتہ 52 سال سے یہ علاقہ عالمی سطح پر متنازع ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔
گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اسرائیل دونوں ملک ہی خاص اہمیت دیتے ہیں اس کی اہم وجہ اس کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت ہے۔ شام کے جنوب مغرب میں واقع اس پہاڑی سلسلے سے شامی دار الحکومت دمشق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کے بعد سے اسرائیلی فوج یہاں سے شامی فوج اور جنگجوؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہاں سے شمالی اسرائیل کا علاقہ بھی دسترس میں ہے اور 1948 سے 1967 تک جب یہ پہاڑی سلسلہ شام کے زیر انتظام تھا تو شامی فوج یہاں سے شمالی اسرائیل پر گولہ باری کرتی رہی ہے۔ غاصبانہ قبضے کے بعد1981میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کو اپنی ملکیت قرار دینے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اس علاقے کا جغرافیائی محل وقوع اسرائیل کو شام کی جانب سے کسی بھی عسکری حملے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عسکری اہمیت کے علاوہ اس بنجر علاقہ کے لیے پانی بھی ان پہاڑیوں سے بارش کے پانی سے بننے والے ذخیرہ سے حاصل ہوتا ہے جو اسرائیل کے لیے پانی کے حصول کا تیسرا بڑا ذریعہ بھی ہے۔
گولان کی پہاڑیاں 1200 شامی دارالحکومت دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ اس علاقے پر تقریباً 30 یہودی بستیاں قائم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 20000 لوگ منتقل ہو چکے ہیں۔اس علاقے میں تقریباً 20000 شامی لوگ بھی رہتے ہیں۔ امریکی صدر کے اس اقدام کو بشار الاسد رجیم ، روس اور ایران کے لئے بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے۔ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان نے امریکی صدر نے بشار الاسد رجیم ، ایران اور روس کو غیر متوقع طور پر حیران کردیا تھا۔ گو کہ ابھی تک امریکا شام سے داعش کو مکمل شکست کے اعلان کے بعد فوجی انخلا رکوانے کے لئے امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں اختلافات بدستور برقرار ہیں۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعد2000امریکی فوجی واپس بلا لئے گئے ہیں تاہم اب بھی امریکی افواج کا انخلا مکمل نہیں ہوا ۔ امریکا کبھی400تو کبھی100فوجی شام میں موجود رہنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ شام میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد خطے میں نئی صورتحال کے حوالے سے ترکی ، ایران اور روس کا اثر نفوذ بڑھنے کی امید رہی ہے کہ امریکی انخلا اور بشار الاسد مخالف قوتوں کے خالی کردہ کردہ علاقوں پر شامی اور ایرانی اتحاد اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنا نے کی کوشش رہے ہیں۔
گولان کی پہاڑیوں پر امریکی اقدام کے خلاف سعودی عرب نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ سعودی حکومت نے امریکا پر واضح کیا ہے کہ” گولان کا پہاڑی علاقہ ایک عرب علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور قبضہ ملکیت نہیں بن جاتا ہے، مستقبل میں بھی یہ علاقہ عرب کا حصہ رہے گا۔ امریکی صدر کو اپنے متنازعہ فیصلے کو واپس لیکر خطے میں امن کے خطرے کو ٹال دینا چاہیئے”۔ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل برطانیہ، فرانس، روس اور چین نے بھی امریکی فیصلے کے برخلاف گولان کے پہاڑی علاقوں کو بدستور مقبوضہ علاقہ تسلیم کرنے کا اعلان کرکے فلسطین، شام، ترکی اور سعودی عرب کے موقف کی تائید کردی ہے۔ ترکی اور شام نے بھی امریکی فیصلے کو عالمی قوانین کے منافی قرار دیا تھا۔گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ سلامتی کونسل میں گولان کی پہاڑیوں پر امریکی اقدام پر اجلاس بلائے جانے کی درخواست دی جاچکی ہے۔
امریکی اقدام پر مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔تاہم امریکا کی جانب سے اپنے اقدام کو درست قرار دیا جارہا ہے کہ ایران اب شام میں عملی طور اپنا اثر نفوذ بڑھا چکا ہے اور اسرائیل کے خلاف ایک بڑے خطرے کی صورت میں موجود ہے اور اس جگہ پر اپنے میزائل نصب کرکے خطرہ پیدا کرسکتا تھا اس لئے امریکا نے خطرات سے بچائو کے لئے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ جائز قرار دیا۔
پاکستان نے بھی شام کی گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختاری تسلیم کرنے کے امریکی انتظامیہ کے فیصلے کی شدید مخالفت اور مذمت کی ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے بیان میں کہا کہ” امریکی فیصلہ اقوام متحدہ کے منشور، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قابل عمل قرارداد کی سنگین خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے قانون کی حکمرانی اور بین الاقوامی روایات کو شدید دھچکا لگا ہے۔ترجمان نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی غم و غصے کی تائید کرتا ہے اور اس فیصلے کے خطے اور خطے سے باہر ممکنہ سنگین نتائج کے بارے میں شدیدتحفظات رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لے اور اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اقدامات کرے۔”
گولان کی پہاڑیاں جہاں ایک طرف فلسطین کے لئے اہمیت کی حامل ہیں تو دوسری جانب ایران کے توسیع منصوبے کے تحت شام کے راستے اسرائیل پر حملہ آور ہونے کے لئے اہم محاذ کی حیثیت بھی رکھتاہے۔ عرب ممالک1967 جنگ کے بعد سے اسرائیل کے قبضے سے ابھی تک گولان کی پہاڑیوں کو آزاد نہیں کراسکے ۔ تاہم اس علاقے سے اسرائیل پر ایرانی حمایت یافتہ ملیشیائوں کے حملوں سے اسرائیل کو مسلسل پریشانی کا سامنا رہاہے۔ شام میں ایران اثر بڑھ جانے کے بعد اسرائیل کو عدم تحفظ کا احساس بڑھ چکا تھا ۔اسرائیل اور امریکا نے ایران کے بڑھتے ہوئے اثر نفوذ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایران اور ایرانی کی حمایت یافتہ جنگجو ملیشیا وگروپس، عراق اور شام کو اسرائیل کے خلاف حملوں کے لئے استعمال کر ے گا ۔ امریکی صدر بھی اپنے ان خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔
اسی لئے انہوں ” الاسد” کے فوجی اڈے میں ایرانی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا تھا عراق میں امریکی فورسز ایرانی نفوذ پر قریب سے نظر رکھے گی ۔اس کی بنیادی وجہ اُس وقت سامنے آئی جب عراق میں ایران نواز جنگجو ملیشیا ئوں میں سے عصائب اہل الحق کے سیاسی ونگ ” صادقون”نے اسرائیل پر حملوں کے لئے شام میں داخل ہونے کی دھمکی دی تھی۔ شام میں موجود ایرانی عسکری ٹھکانوں پر اسرائیلی حملوں میں اضافے کے بعد عراقی ملیشیا کی قیادت کے اعلان کے بعد ایرانی فضائیہ کے سربراہ بریگیڈیئر جبل عزیز نصیر زادہ کا بھی اعلان آیا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ فیصلہ کن معرکے کے لئے تیار ہے۔ مشرق وسطی کی صورتحال میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے باوجود جلد بہتری کی توقعات نہیں ہیں۔بلکہ ایک نئے محاذ کھلنے کا امکان زیادہ ہے۔
شام میں ایران کی موجودگی کو ایک بڑا جواز بھی مل سکتا ہے ۔ ایران ، اسرائیل کے لئے امریکا کے اس اقدام کے بعد شام میں اپنی افواج میں اضافے کے ساتھ ساتھ میزائل بھی نصب کرسکتا ہے۔ حال ہی میں لبنان کی سرحد کے نزدیک سفیتہ کے مقام پر میزائل اڈا تعمیر کیا ہے۔وہ شام کے صحرا کے بیچوں بیچ ریل کی پٹڑی بچھانے کی بھی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ چناں چہ امریکا کی گولان کی چوٹیوں کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے کوششوں سے ایران کو اپنی توسیعی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا جواز بھی ملے گا ۔
شام سے امریکی فوجی انخلا کررہے ہیں اور شام کی نئی آئینی حکومت بنانے کے لئے ایران ، ترکی ور روس کا اثر اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ اسی تناظر میں خاص طور پر شام اور ایران کے صدر حسن روحانی اور مذہبی رہنما سے پہلی مرتبہ ملاقات میں علاقائی صورتحال پر ملاقات ہوئی تھی۔ شام میں تبدیل ہوتی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے روس کے شہر سوچی میں روسی صدر ولادی میر پوتن ، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ایران کے صدر حسن روحانی چوتھے سہہ فریقی اجلاس میں 14 فروری کوشریک ہوچکے ہیں ۔اجلاس میں امریکہ کے فوجی دستوں کے شام سے انخلا کے فیصلے کا بھی جائزہ لیا گیا تھا۔ خاص طور پر دہشت گردی کے موضوع پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ قائم کیے جانے والے سکیورٹی زونز دہشت گرد تنظیموں کے لئے فروغ دینے کا باعث نہیں بننے چاہئے۔فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں سات برسوں میں 5لاکھ سے زاید افراد جاں بحق ہوچکے ہیں نیز لاکھوں شامی عوام اپنے ہی ملک میں آئی ڈی پیز بننے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں افراد نے ترکی ، لبنان ، اردن ، یورپ میں پناہ لی ہوئی ہے۔
شام میں خانہ جنگی اور تازہ ترین تبدیلیوں پر ترکی ، روس اور ایران باہمی رابطے میں رہتے ہیں ۔ ان مذاکرات کوآستانہ عمل کا عنوان دیا گیا تھا ، تینوں ممالک اِس وقت شام میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت روس اور ایران کررہا ہے ، جب کہ امریکا بشار حکومت کے خاتمے کی کوشش کرتا رہا ہے ، داعش نے عراق و شام میں اپنے مضبوط ٹھکانے بنا لئے تھے ، جس کے خاتمے کے لئے عالمی قوتوں نے شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، دوسری جانب ایران نے بشار الاسد کی صدارت کو بچانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ ایک پر امن مظاہرے سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں لاکھوں انسانوں کو جانی و مالی نقصان ہی نہیں پہنچا بلکہ فرقہ وارانہ اختلافات کا اثر پوری مسلم دنیا پر پڑا ۔ شام میں گزشتہ تین برسوں سے بڑی تیز رفتاری سے تبدیلیاں ہورہی ہیں اور اب ترکی مشرقی شام میں کرد باغیوں کے خلاف جنگی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہ ترکی کے لئے بہت بڑا فیصلہ ہے کیونکہ امریکا اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ترکی اب خود شام میں جنگ کا ایک کردار بن چکا ہے جو 30لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی بھی کررہا ہے جس پر 30ارب ڈالر اخراجات کو بھی برداشت کررہا ہے۔
امریکا کا عالمی برداری کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنے کے سبب خطے میں ایک نازک صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ شام میں فرقہ وارنہ خانہ جنگی کے خاتمے میں کمی کے بعد اس بات کی امید پیدا ہوئی تھی کہ شام سے ہجرت کرنے والے لاکھوں مہاجرین واپس اپنے گھروں میں لوٹ آئیں گے ۔ تاہم انہیں گھروں کی واپسی میں شامی حکومت کی جانب سے کچھ دشواریو ں کا سامنا بھی ہے ۔ کیونکہ شامی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کے خلاف لڑنے والے مزاحمت کار ان مہاجرین کے ساتھ دوبارہ مملکت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے شامی حکومت ایران سے صلح و مشورے پر کام کررہی ہے ۔ تاہم دوسری جانب ایران کی جانب سے شام جانے والے جنگجو ملیشیائوں کا ہدف اسرائیل کی جانب بھی ہوچکا ہے ۔ جیسا کہ ایران کے کئی جنگی جرنیلوں نے اسرائیل کو سبق سیکھانے کی بات کی۔ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے ایران کے لئے سب سے موثر ذریعہ شام کی سرزمین ہے ۔ جس میں گولان کی پہاڑیوں کو ایک خصوصی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ لیکن اب امریکا کی جانب سے گولان کو اسرائیلی علاقہ قرار دینے کے بعد امریکا ، اسرائیل کی حمایت و ایما پر براہ راست ایران و شام کے خلاف فضائی کاروائی کرسکتا ہے۔ گو کہ اسرائیل شام میں موجود ایران کے کئی ٹھکانوں کو کئی بار نشانہ بنا چکا ہے۔ لیکن اس بار نوعیت جداگانہ ہے۔
امریکا ، اسرائیلی حمایت میں کسی بھی ملک کے موقف کو تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ مصر کے دورے کے دوران مصری وزیر خارجہ سمیع شکرو نے امریکا کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے دورا ن واضح طور پر کہا کہ گولان کی پہاڑیاں عرب کی زمین ہیں ۔اور اس کی تصدیق بین الاقوامی قوانین بھی کرتے ہیں۔ ترکی کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہم 1967 سے اسرائیل کے قبضہ میں گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرنے کے امریکی انتظامیہ کے فیصلے سے ناخوش ہیں اور اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔یہ بدقسمتی بھرا فیصلہ ہے جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 497 (1981) کا جو واضح کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ مغربی ایشیا میں قضیہ کے حل کے بجائے مسئلے کا حصہ بنا ہوا ہے”وزارت نے کہا کہ مسٹر ٹرمپ کا فیصلہ ترکی کے لئے ناقابل قبول ہے”۔
امریکا کی جانب سے گولان کی پہاڑیو ںپر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرے کے بعد خطے میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ حالیہ سلامتی کونسل کا بلائے جانے سے قبل امریکی سفارتخانے کے معاملے پر بھی اہم اجلاس بلایا گیا تھا لیکن امریکا نے قرارداد کو ویٹو کردیا تھا، جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریکا کو بدترین شکست کا سامنا ہوا ، لیکن امریکا نے اقوام متحدہ کی بھی پرواہ نہیں کی ۔ اب امریکا بہت بڑا قدم اٹھا کر اقوام متحدہ کے قرارداد و آئین کو پیر وں تلے روند دیا ہے ۔ سلامتی کونسل کا اجلاس دو بارہ بلایا گیا ہے۔ تاہم اس اجلاس کا بھی وہی نتیجہ نکلا جو امریکی سفارت خانے کے تل ایبب پر منتقلی پر احتجاج کو مسترد کرنے پر نکلا تھا ۔ امریکا ، اسرائیل کی حمایت میں انتہائی اقدام تک جانے کو تیار ہے اسے اقوام متحدہ اور عالمی برداری سمیت اپنے حلیف اور اتحادیوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ، بلکہ امریکا ، اپنی طاقت کی دھونس پر جو کرنا چاہتا ہے وہ کرگزرتا ہے ۔ جب تک عرب ممالک امریکا پر انحصار ختم نہیں کرتے اور اپنے اختلافات ختم نہیں کرتے ۔ امریکا اور اسرائیل کی من مانیاں جاری رہیں گی اور عالمی امن کو ہمیشہ خطرات کا سامنا رہے گا ۔
مشرق وسطی کے اس اہم ترین تنازعہ پر اسرائیلی اور امریکا کی من مانیاں خطے میں امن کے قیام میں حائل رہیں گی ۔ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیلی ملکیت تسلیم کرنے کی امریکا ایک بار پھر عالمی برداری کے مخالف کھڑا ہے لیکن عالمی برداری اور اقوام متحدہ کی تمام تر مذمت کے باوجود امریکا اسرائیلی کی غیر قانونی حاکمیت کے لئے اپنی طاقت کا غیر قانونی استعمال کررہا ہے۔ امریکا کا جانب دارنہ رویہ ، عرب ممالک سمیت تمام عالمی برادری کے لئے بھی نوشتہ دیوار ہے کہ امریکا ، عالمی قوانین کی دھجیاں بکھرنے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ۔صدر ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسیوں نے امریکی چہرے کو مزید بے نقاب کردیا ہے ۔ عرب ممالک اور فلسطین کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کو اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم امریکی خواہشات کے مطابق چلانے سے روکنے کی روک تھام کرنے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کا پلیٹ فارم ہمیشہ امریکا نے اپنے فروعی مقاصد اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو جائز قرار دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔ امریکا کو فلسطین و مقبوضہ کشمیر میں غاصبوں کے ظلم و ستم نظر نہیں آتے ۔ امریکا بس اپنے فروعی مفادات کے لئے عالمی قوانین کو روندنا جائز سمجھتا ہے۔ امریکا اسرائیل کی خوشنودی کے لئے ہر انتہائی اقدام کو جائز سمجھتا ہے ۔ اسرائیل کے تنازع کا حل اقوام متحدہ کے پاس نہیں بلکہ عرب ممالک کے پاس ہے کہ عرب و عجم اپنے مفادات کو مسلم امہ کی سلامتی کے لئے استعمال کریں۔ مسلم ممالک کے باہمی اختلافات سے امریکا اور اسرائیل پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں انہیں لگام دینے کے لئے مسلم امہ کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔