انقرہ (جیوڈیسک) ترکی میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹوں کے بعد گنتی کا عمل جاری ہے اور دارالحکومت انقرہ میں مئیر کے عہدے کے لیے حزبِ اختلاف کے امیدوار کو برتری حاصل ہے۔ اگر صدر رجب طیب ایردوآن کے زیر قیادت حکمراں انصاف اور ترقی پارٹی ( آق) یہ نشست ہار جاتی ہے تو گذشتہ سولہ سال کے بعد دارالحکومت میں اس کی یہ پہلی شکست ہوگی۔
انقرہ میں میئر کے انتخاب کے لیے ڈالے گئے ووٹوں میں سے دمِ تحریر تین چوتھائی کی گنتی ہوچکی تھی اور اس میں سیکولر عوامی پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے امیدوار منصور یاواس 49.8 فی صد ووٹ لے کر اپنے حریف آق کے امیدوار سے آگے تھے۔ آق کے امیدوار نے 47 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔
ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں آق پارٹی کے امیدواروں کی پوزیشن بظاہر مضبوط نظر آرہی تھی لیکن دارالحکومت انقرہ میں اس کی شکست خود صدر رجب طیب ایردوآن کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگی ۔انھوں نے گذشتہ دو ماہ کے دوران میں بلدیاتی انتخابات میں اپنی جماعت کے امیدواروں کی جیت کے لیے انتھک مہم چلائی تھی اور ان انتخابات کو’ ترکی کی بقا ‘کا معاملہ قرار دیا تھا۔
استنبول میں میئرشپ کے لیے آق کے امیدوار سابق وزیراعظم بن علی یلدرم نے 49.7 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے اور انھوں نے اپنے حریف اور سی ایچ پی کے امیدوار سے 1.9 فی صد زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔نشریاتی ادارے این ٹی وی کے مطابق استنبول میں قریباً 90 فی صد بیلٹ باکس کھولے جاچکے تھے اور ووٹوں کی گنتی جاری تھی۔
صدر ایردوآن ترکی کی سیاست میں گذشتہ سولہ سال سے چھائے ہوئے ہیں ۔مضبوط اقتصادی ترقی کی بدولت وہ اور ان کی جماعت کے امیدوار منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں جبکہ انھیں ترکی کے مذہبی ووٹ کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے لیکن گذشتہ سال صدارتی انتخابات کے بعد سے ترکی کی معیشت میں ابتری آئی ہے اور ترک لیرے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 30 فی صد سے زیادہ کمی واقع ہوچکی ہے، افراطِ زر کی شرح 20 فی صد ہوچکی ہے اور بے روزگاری میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے پیش نظر ان کے بہت سے حامی ووٹر بھی ان سے نالاں ہوگئے تھے اور انھوں نے ان انتخابات میں آق کے امیدواروں کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا یا گھر بیٹھنے کو ترجیح دی ہے۔
ان بلدیاتی انتخابات کے دوران میں ملک کے جنوب مشرق اور استنبول میں تشدد کے مختلف واقعات پیش آئے ہیں۔صوبہ مالطیہ میں ایک چھوٹی اسلامی جماعت سعادت کے دو ارکان کو ایک اسکول میں قائم پولنگ اسٹیشن میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے۔ان میں ایک پولنگ اسٹیشن کا ذمے دار تھا اور ایک انتخابی مبصر تھا۔
صوبائی گورنر کے دفتر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ان افراد کے قتل میں ملوث ہونے کےا لزام میں چار مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ترک صدر نے استنبول میں ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ تشدد کے اس واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔انھوں نے کہا:’’ میری خواہش ہے کہ کوئی اور اس طرح کا واقعہ رونما نہ ہو‘‘۔
سعادت کے چئیرمین تیمل کرم اولیٰ اوغلو نے ٹویٹر پر ایک بیان میں آق کے ایک امیدوار کے بھتیجے پر پولنگ اسٹیشن پر حملے کا الزام عاید کیا ہے۔ صدر ایردوآن نے کرم اوغلو سے فون پر بات کی ہے اور ان کی جماعت کے کارکنان کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے واقعے کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔
استنبول کے ایک علاقےمیں ایک اور شخص کو چاقو گھونپ دیا گیا ۔شہر کے ایشیائی حصے میں امیدواروں کے درمیان تنازع کے بعد پندرہ افراد آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ پولیس نے اس لڑائی کے بعد سات افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
ترکی کے جنوب مشرق میں واقع بڑے شہر دیار بکیر میں امیدواروں کے درمیان جھگڑے کے بعد دو افراد کو چاقو گھونپ دیا گیا۔ان میں ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ترک میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جنوب مشرقی علاقوں میں تشدد کے دوسرے واقعات میں دسیوں مزید افراد گھائل ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل سی ایچ پی اور اچھائی پارٹی (لئی) نے آق اور اس کی اتحادی قوم پرست ایم ایچ پی کے مقابلے میں انتخابی اتحاد قائم کر لیا تھا۔حزب اختلاف کی کرد نواز جماعت عوامی جمہوری پارٹی ( ایچ ڈی پی) نے استنبول اور انقرہ میں اپنے امیدوار میدان میں نہیں اتارے ہیں۔ اس کے اس فیصلے کا حزبِ اختلاف کو فائدہ ملنے کا امکان ہے۔