اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک بار پھر ملکی حکومت کے سامنے ہے۔ جہاں کئی سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر مشاورت میں مصروف ہیں، وہیں بہت سے ناقدین ان کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کے خلاف بھی ہیں۔
دسمبر دو ہزار چودہ میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد سیاسی جماعتوں کی حمایت سے دو ہزار پندرہ میں فوجی عدالتوں کو دو برس کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کر سکیں۔ ان کی مدت میں گزشتہ توسیع دوہزار سترہ میں دو سال کے لیے کی گئی تھی، جو اس سال تیس مارچ کو ختم ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ فوجی عدالتوں کو مجموعی طور پر سات سو سترہ مقدمات بھیجے گئے تھے، جن میں سے ایک سو پچاسی مقدمات کے فیصلے تیس مارچ تک ہو چکے تھے۔
ملکی سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما سینیٹر نزہت صادق نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری پارٹی کا آج ایک اجلاس ہوا، جس میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ مسلم لیگ ن کا موقف یہ ہے کہ حالات بہتر ہو گئے ہیں، اس لیے حکومت اب بتائے کہ اسے ان عدالتوں کی اب کیا ضرورت ہے۔ ہم حکومتی نکات کو پارٹی کے سامنے رکھیں گے اور پھر اس پر اپنا فیصلہ کریں گے۔ ابھی تک تو حکومت نے ہم سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی نے ماضی میں فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی۔ تاہم اس کے ایک مرکزی رہنما رضا ربانی نے تب ’آنسوؤں کے ساتھ‘ اس فیصلے کو قبول کیا تھا۔ پی پی پی کی پوزیشن فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے ابھی تک غیر واضح ہے۔ پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے پیداوار آیت اللہ درانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس مسئلے پر غیر رسمی بات چیت ہو رہی ہے۔ تاہم ہماری پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس ایک دو دن میں ہونے والا ہے، جس میں اس پر باقاعدہ بحث ہو گی۔ اس کے علاوہ ہماری پارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی اُس بریفنگ میں بھی شرکت کریں گے، جو آرمی چیف کی طرف سے دی جائے گی۔ ہم معروضی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ ابھی ہم نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہم اس ممکنہ توسیع کی حمایت کریں گے یا مخالفت۔‘‘
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
اسی دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی سمجھتی ہے کہ ملک کو فوجی عدالتوں کی ابھی ضرورت ہے۔ تاہم موجودہ حکومت یہ کام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے سے کرے گی۔ دوسری طرف حکومت کی ایک اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ابھی تک اس سے اس سلسلے میں کوئی مشاورت نہیں کی۔ پارٹی کے ترجمان امین الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے ماضی میں بھی فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی اور اب بھی ہم پی ٹی آئی کی طرف سے رابطے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے ہی وہ اس بارے میں ہم سے بات کریں گے، ہم اسے اپنی رابطہ کمیٹی کے پاس لے کر جائیں گے اور تبھی اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک نے گیند حزب اختلاف کی جماعتوں کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں ممکنہ توسیع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ حزب اختلاف جو بھی فیصلہ کرے گی، وہی ہمارا فیصلہ بھی ہو گا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کا ایک اجلاس ہونا تھا، لیکن وہ ہوا نہیں۔ جب یہ اجلاس ہو گا، اسی وقت صورت حال واضح ہو گی۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک کثیرالجہتی پالیسی کی ضرورت ہے اور فوجی عدالتیں اس کا صرف ایک حصہ ہیں۔‘‘
پاکستان میں جہاں مختلف سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر غور کر رہی ہیں، وہیں ناقدین ان فوجی عدالتوں کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس توسیع کے بجائے حکومت کو ملکی عدالتی نظام میں اصلاحات لانا چاہییں۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین کے خیال میں ایسی عدالتوں کا قیام اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ آپ کی عدلیہ اپنی ذمہ داریاں پورا نہیں کر رہی، ’’میرے خیال میں عدالتی نظام کی اصلاح ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت نہ تو مناسب اسٹاف عدالتوں کو دے رہی ہے اور نہ ہی عدلیہ کی دیگر ضروریات پورا کر رہی ہے، جس کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات کا انبار لگ رہا ہے۔ میرے خیال میں ایسی عدالتوں کا قیام ہی نامناسب ہے۔ اگر ہم ان کو توسیع دینا چاہتے ہیں، تو اس کے ساتھ ہمیں عدالتی نظام کی اصلاح بھی کرنا پڑے گی اور عدلیہ کو سہولیات بھی دینا پڑیں گی۔ ورنہ فوجی عدالتوں کی توسیع پر مستقبل میں پھر ایک بار بات کی جائے گی۔‘‘
کچھ ناقدین کے خیال میں ایسی عدالتیں ہونا ہی نہیں چاہییں۔ معروف سیاست دان اور سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کے خیال میں ان عدالتوں کے طریقہ کار پر بھی کئی سوالات ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے تو ہمیشہ سے ان عدالتوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ متوازی نظامِ عدل قائم کرنے سے ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اوپر سے نیچے تک عدالتی نظام کی اصلاح کرے۔ پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو منسوخ کیا ہے۔ ان عدالتوں کی منصفانہ عدالتی کارروائی، احتساب اور طریقہ کار کے حوالے سے بھی کئی سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔‘‘
معروف تجزیہ نگار ضیاءالدین کے خیال میں اگر جی ایچ کیو سیاسی جماعتوں کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے قائل کر لیتا ہے، تو وہ اس توسیع کی حمایت کر دیں گی۔ لیکن بشریٰ گوہر کے خیال میں سیاسی جماعتوں پر پہلے بھی دباؤ ڈالا گیا تھا اور اب بھی اگر ان پر ’نظر نہ آنے والی قوتوں‘ نے دباؤ ڈالا، تو وہ اس کی حمایت ہی کریں گی۔