آج یکم اپریل ہے۔ مغرب کئی رسومات و طورطریق کو بدقسمتی سے ہم نے بھی اپنایا ہوا ہے ۔ جس میں ”اپریل فول” منانا بھی شامل ہے۔ مذاق میں کسی کو بے وقوف منانے کی روایت کو حوصلہ شکنی کی اس لئے ضرورت ہے کہ کیونکہ اس منفی و بے ہودہ مذاق سے کئی قیمتی جانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوجاتے ہیں جس کی توقع بھی نہیں کی گئی ہوتی۔ یکم اپریل اس قسم کی رسومات سے قطعاََ پرہیز کیجئے۔ اپریل فول کے دن پر کئی ایسے معاملات بھی یاد آگئے جو اپریل فول منانے کی مناسبت سے رونما تو نہیں ہوئے تھے لیکن ابھی تک عوام کو ‘ فول ”ہی بن رہے ہیں۔ سب سے اہم واقعہ جیسے دوہرائے بغیر رہ نہیں رہ سکتا وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 31 مارچ کے دن اغوا ہوئی تھی ۔16برس بیت چکے ہیں اور ہر بار قوم فول بن جاتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کی جبری قید سے جلد واپس لایا جائے گا ۔ لیکن بے وقوف بنانے کا یہ سلسلہ ایک عشرے سے جاری ہے۔
ہر حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کا وعدہ قوم سے کرتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اُس وعدے کو اس طرح بھول جاتی ہے کہ جیسے ان کا وعدہ کوئی وعدہ نہیں بالکل” اپریل فول” کا دن تھا ۔ دلی جذبات احساسات اور قوم کے ساتھ ایسے کھیلوار کو کیا نام دیا جائے ؟ ہر بار ہر سال ، ہر تہوار پر اس امید کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئے وعدوں پر اعتبار کرلیتے ہیں کہ اس بار ارباب اختیار تو اپنا وعدہ پورا کریں گے ۔ لیکن ان کا ہر وعدہ اپریل فول سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا ۔میں ذاتی طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، کے اہل خانہ اوربالخصوص ان کے بچوں سے اظہار ہمدردی کرتا ہوں کہ قوم کی بیٹی ، ہمار ی بہن امریکی غلامی میں قید ہیں اور ہم یہاں کسی دوسرے کو بے وقوف بنا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ دیکھو کیسا ” فول ” بنایا۔
30مارچ کووزیر اعظم کراچی کے دورے پر آئے ۔ کراچی سے کئے گئے وعدے ہنوز پورے ہونے کے منتظر ہیں ۔ ایک جانب کہا جاتا ہے کہ پنجاب ، وفاق کے خزانے خالی ہیں ۔تو دوسری جانب سندھ بالخصوص کراچی میں کئی منصوبوں و پیکچز کے اعلانات کرتے ہیں ۔ سندھ پوچھتی ہے کہ گرین لائن بسوں کا افتتاح کب ہوگا تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کراچی کی گرین لائن بسیں بھی پشاور کی بی آرٹی میٹرو بس سروس ہے جس کی تکمیل و افتتاح کے کئی وعدے کئے گئے ۔ لیکن ابھی تک ایفا نہیں ہوسکے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے ملکی معاشی شہ رگ شہر کراچی کے ساتھ ارباب اختیار کا ایسا رویہ ناقابل فہم نہیں رہا کہ اہل کراچی اب فول نہیں بننا چاہتے۔ لیکن بے بسی یہ ہے کہ اہل کراچی سے سب وعدے ہی توکرتے ہیں ، بس پورا کوئی نہیں کرتا ۔ وزیر اعظم نے اہل کراچی سے کئے جانے والے ایک وعدے کا بھی سنگ بنیاد تک نہیں رکھے ۔ ان کی کابینہ کا تمام زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح سندھ میں پی پی پی کی حکومت کو کمزور کردیا جائے۔
پی پی پی میں کوئی فاروڈ بلاک بن جائے ۔ وزیر خارجہ کی سیاسی آنکھ کے مطابق انہیں سندھ میں تبدیلی نظر آرہی ہے ۔ تو دوسری جانب کراچی سمیت ملک بھی کی عوام ہاتھ جوڑ کر مزید” تبدیلی ”لانے سے ہاتھ جوڑرہی ہے کہ مہنگائی کا پہاڑ ان کے ناتواں کندھوں پر مسلسل ڈال کر کہا جارہا ہے کہ سخت حالات جلد گذر جائیں گے ۔ 8مہینے بعد بھی حکومت کی معاشی پالیسی ، بکرے ، مرغی اور انڈے سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ۔ کراچی کے لئے 165ارب روپے کے اعلان کے سنگ بنیاد رکھنے جانے کا انتظار رہے گا۔ وارنہ راقم تو اسے اپریل فول ہی سمجھ رہا ہے۔ بہرحال این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے سندھ کے تحفظات سنگین نوعیت کے ہیں ۔ اس سے صوبے اور وفاق میں مزید فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔ سندھ کی حکمراں جماعت کے قیادت کے مقدمات پنڈی جانے سے سندھ کی انتظامیہ و عدلیہ پر عدم اعتماد نے صوبے و وفاق کے درمیان خلیج اور بدگمانیوں کو بڑھا دیا ہے ۔ اب این ایف سی ایوارڈ اور کراچی پیکجز کے حوالے سے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ اپریل فول منانے کا سلسلہ جاری وساری رہے گا۔
کراچی میں ” گسٹا” اور صوبائی وزیر تعلیم کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کی بعد میٹرک کے امتحانات انعقاد ممکن ہوگیا ہے۔ افسوس ناک صورتحال سامنے آئی تھی جب اساتذہ کے احتجاج کو بزور طاقت ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس پر خود پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی افسوس کا اظہار کیا ، وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی ایکشن لیا ۔ اچھا ہوتا کہ مظاہرین کے جائز مطالبات کو فوراََ مان لیا جاتا اور اساتذہ کا احتجاج کراچی سے پورے سندھ تک نہ پھیلتا ۔ میٹرک کے امتحانات دو اپریل سے شروع ہوجائیں گے اور ” بوٹی مافیا ” کی جانب سے معصوم طالب علموں کو پیسوں کے عوض نقل کروانے کے امکانات یقینی طور پر ہونگے ۔ نقل کرانے کے معاملے میں کوئی خاص گروہ ہی نہیں بلکہ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں میں موجود کالی بھیڑیں سب سے زیادہ ملوث ہوتی ہیں اور اس سے بھی زیادہ خطرناک رجحان یہ ہے کہ پرائیوٹ اسکولز امتحانی مراکز کے ساتھ جوڑ توڑ کر لیتے ہیں ۔ اس وقت کی اعلاعات کے مطابق 3000فی طالب علم کا کم ازکم ریٹ بیشتر پرائیوٹ اسکولوں میں چل رہا ہے جنہوں نے 4کمروں کی عمارت لے کر اُسے اسکول اور کوچنگ سینیٹر بنایا ہوا ہے ۔ ایسے عقوبت خانوںکے علاوہ ایسے ابیشتر سکولز جو سرکاری فاونڈیشن و این جی اوزکے تحت چل رہے ہیں اپنی کارکردگی رپورٹ اچھی بنانے کے لئے نقل کے رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ” فول” بنانے کا رجحان بڑے دھڑلے سے ہر برس سیکنڈری بورڈ کے امتحانات میں منایا جاتا ہے ۔
یکم اپریل کو عوام کو فول منانے کی ایک ملک گیر بڑی واردات بھی ہونے کی توقع ہے کہ پٹرول ، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کرنے کی سمری تیار کی گئی ہے ۔ اگر من وعن سمری کو منظور کیا جاتا ہے یا پھر اس میں نصف بھی کم کیا گیا تب بھی عوام پر مہنگائی کی سونامی تو ضرور آئے گی۔ اس سونامی سے سب سے زیادہ کراچی متاثر ہوگا ۔ قیمتوں کے بڑھائے جانے سے پبلک ٹرانسپورٹ ، لاجسٹک ٹرانسپورٹ سمیت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں متوقع اضافہ عوام کی ٹوٹی ہوئی کمر کے مزید مہرے توڑ دے گا ۔اپریل کے بعد رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ۔ عوام ابھی سے سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ رمضان المبارک سے ذخیرہ اندوز ی شروع ہوجائے گی ۔ مقدس مہینے کے فیض سے محروم طبقہ حکومتی ریلیف کے نام سے گھبرانے لگا ہے ۔ کیونکہ جب بھی حکومت ریلیف کا نام لیتی ہے تو مہنگائی کا ایک نیا سونامی آجاتا ہے ۔ ماہ مئی میں آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پروگرا م ملنے کے اطلاعات کے بعد سے اشیا ء صرَف آسمان کی قیمتیں مریخ کی سطح پر جانے کا خدشہ ہوجائے گا ۔ حکمراں جماعتوں سے دست بدستہ عرض ہے کہ معاملہ چاہے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہو ، معاشی معاملات کا ہو ، کراچی کے لئے 162ارب روپے کے پیکجز کا ہو ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑھانے کا ہو ، مستقبل کے معماروں کو نقل کرانے کے رجحان کے حوصلہ افزائی کا ہو۔ خدا کے لئے سنجیدہ ہوجائیں اور قوم کو ” فول” بنانا بند کر دیں۔