بلاول بھٹو زرداری کا دورانِ ٹرین مارچ خطاب، مختلف موضوعات پر بات کرتے یہ کہنا کہ” وزیر اعظم عمران خان کہتے کہ میں کسی کو این آراو نہیں دوں گا تو پھر دہشت گردوں، جہانگیر ترین ،علیمہ خان کو کیوں دیا؟ ”اِدھراُدھر کی باتیں نہ کر،مطلب پر آ،
حقیقت چھپ نہیں سکتی ،بناوٹ کے اصولوں سے خوشبو آ نہیں سکتی ،کاغذ کے پھولوں سے
والی بات ٹھہری،وہی بات ،اپنی کرپشن کا رونا رویا،پکڑے جانے کا شکوہ کیا،اپنے پارٹی رہنمائوں کی گرفتاریوں کی بابت مذمت کی،چہرے کا رنگ اُڑاتی اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا،بدحواسیوں کی حد تک مشتمل شعر گوئی کی،اپنے،اپنے خاندان، ساتھیوں پر جعلی اکائونٹس کیس کے باعث ہونے والے ”مظالم اور تکالیف”پر ”دل کُھول” کر برسے،پریشان حال ،بکھرے بالوں کے ساتھ ”ہم نہیں ڈرتے”کا سوانگ بلند کیا، ”ہم نہیں جھکنے والے ” کا اراگ الاپا،پاکستان کے لیے اپنی ”خدمات”اور ”قربانیوں”کا ذکر خیر کیا،ٹیرے میڑے ،منہ مروڑے ،حقیرانہ انداز اپنائے عمران خان کو کم نقصان پہنچائے ،اپنا سب کچھ بربادی کی آگ میں جھونکے،انتہائی مرے اور بجھے سے چہرے کے ہمراہ عمران کی نقلیں اتاریں،عمران کو مخاطب کرکے 50لاکھ گھر کدھر گئے،ایک کروڑ نوکریاں کہاں ہیں؟اُن کی اہلیت وصلاحیت پر سوال کرتے رہے،علیمہ خان کی طرح کی جادوئی مشینیں ہمیں بھی دوکہ جس سے سندھ کی عورتیں امیر اور امریکہ جاسکیںجیسی احمقانہ باتیں کھوئے کھوئے سے انداز سے کہیں،عوام کے سامنے اپنی ”ادائے فریبانہ”کے ساتھ عوام کے حقوق و فرائض چھن جانے اور حق نہ ملنے کی کہانیاں سنائی،کاش یہ سب سناتے ایک باراپنے نانا،ماما،پاپا کے دور حکومت پر بھی ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ایک نظر ڈال لیتے،جن کے دور میں روٹی، کپڑا،مکان کا نعرہ لگا کر غریب رعایا کے احساسات سے کھیلا گیا،جن کے دور میںغریب کا”حقیقی”پرسان حال کوئی نہ تھا،جن کے دور میںغریب کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے اور اِن کے کھوتے گھوڑے پستے ،بادام اور مربے کھارہے تھے،جن کے دور میں” خاص” تو تھا ہی ،ایک” عام” ورکر بھی لٹیرا تھا،جن کے دور میں غریب کی فلاح وبہبود پر کوئی کام نہ ہوا،ہوابھی تو صرف کاغذوں فاعلوں میں،جن کے دور میں قوم پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر غریب رعایا پر ”احسان عظیم ” کرتے”خزانے” کی ”بوریاں ”کھول دی گئی،جو زکوٰاةکے پیسے تھے۔
جن کے بارے میں عام رائے پھیلائی جارہی تھی کہ بینظیر کے اکائونٹ سے جا رہے،جن کے دور میں غریب رعایا کے نام پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ”غریب ورکر” کو نوازا گیا،جن کے دور میںبینظیر کارڈ کے نام پر اپنے حرام خور ایجنٹوں ٹائوٹوں ورکروں کے ذریعے ‘اکثر’کھان بنوائو” پروگرام کے تحت کارڈ بنائو کے نام پر وسیع پیمانے پر مفلس ونادار عورتوں،بیوائوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا گیا،جس میں افسر سے لے کر چپڑاسی تک ملوث پائے گئے،اِس” بوریوںکھولے ”خزانے کو غریبوں تک صحیح طریقے سے نہ پہنچ سکے ،اپنی پالی لٹیروں کی ایک فوج کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آفس کے مین دروازوں،اندرباہر خیرات میں ملے پیسوں پر بھی نقب زنی کے لیے شتر بے مہار،فاششٹ لوگ بنائے چھوڑ دیا گیا،جن کے دور میں نحیف و نزار بوڑھی مجبور عورتوں،جن کو موبائل بھی ON OFF نہیں کرناآتا تھاکے ATMکارڈ بنا کر اپنے لٹیرے ورکرATM مشین کے باہر غریب رعایا کی مدد کے نام پرATM سے پیسے نکلوانے کے عوض فی کس 500,1000 کی دیہاڑیاں لگانے کے لیے کھلم کھلاچھوڑ دئیے گیے، جن کے دور میں حرام خور فراڈئیے ورکرزاے ٹی ایم سے غریب و لاچار عورتوں کے ATM سسٹم سے ناواقفیت کے باعث پورے کے پورے پیسے اپنے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر لیتے تھے اور کہتے کہ پیچھے سے آئے ہی نہیں ہیں،جن کے دور میں غریب کے حقوق و فرائض ادا کرنے کے پُرفریب نعرے میںملک کی غریب رعایا کو گھربار سے بے نیاز ”اونٹ کے منہ میں زیرہ ”امداد کے نام پر بجائے اِس کے کہ عوام کو سہولتیں دہلیز پر ملیں،امداد کے نام پر” کھجل ”کیا گیا،جن کے دور میں خاص تو خاص،عام ”کن ٹٹا” ورکر بھی ” بدمعاشی کے گڈے چڑھا”لوگوں کا سکھ چین حرام کیے ہوئے تھا،جن کے دور میں حرام خور ورکرز سارا دن کوئی حلال کام نہ کیے،حرام مال کیسے بنائے کی سوچ میںگزار دیتے تھے ،جن کے دور میں دفتروں میں افسروں کو بھی اپنا کام آزادی اور قانون کے مطابق نہیں کرنے دیا جاتا تھا،جن کے دور میں سچ بولنے،لکھنے والے صحافیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔
،جس نے بھی قوم کے درد بانٹے ،اسے مارا گیا،افراد کے جبڑے توڑے گئے،دماغ کوٹے گئے،پسلیاں اُدھیڑ کے رکھ دی گئی،جن کے دور میں اِن کے حرام خور ورکرز اپنے ”سور ناحق” کے لیے روکنے، سمجھانے والوں سے لڑتے ،اُن پرناحق ظلم بن کر اکثریت کی صورت میں ٹوٹ پڑتے کا حال بھی ایک فاششٹ سے کسی طرح کم نہ تھا۔اِن کے قائد آج کس طرح اور کیسے دوسرے کو ہدف تنقید بنائے اُن پر الزام لگا رہے ہیں،آج اُن کو اُن تمام تربیماریوں کا ذمہ دار کیوں ٹھہرا رہے ،جن کے جراثیم اِن کے ہاں مدتوں سے پائے جاتے،قوم کی محرومیوں پراُن پر کیوں اتنا برہم ہوتے ،جب اپنے دور حکومت میں اِن کے لیے کچھ خاص نہ کرسکے،عوام کے بہتر معیار زندگی اور ہر ایک کو روزگار ملے پر اِن پر کیوں برس پڑے،جب اپنے وقت میں اِن کے بلند معیار زندگی اور اچھے روزگار کے لیے کچھ نہ کیا،رعایا کی پتلی حالت پر اِن پر کیوں کڑھتے،فقرے کستے،جب اپنے لمبے عرصے تک محیط دور اقتدار میںاِن کی بہتر حالت پر کوئی کام نہ کیا۔
اپنے اوپر کس ظلم و زیادتی کا رونا روتے ،جب اپنے دور حکومت میں کسی بھی اچھا کرتے شخص پر رحم نہ کھایا،نجانے کس بات پر اب کالعدم تنظیموںپر اتنا شور برپا کیے ہوئے،اپنے دور میں اِن کی ”بیخ کنی” کے لیے کچھ نہ کیا،نجانے کس بات پر جہانگیر ترین کوآڑے ہاتھوں لیتے اور علیمہ خان کی مشینوں کو جادوئی قرار دیتے،جب کہ اپنا سب کچھ ہیرے، سونے،جواہرات جیسا رکھتے،نجانے کس بات پر علیمہ خان کو اتناتڑکا لگاتے،لگاتے وقت اپنا آپ بھول جاتے،نجانے کیوںعلیمہ خان پرکرپٹ ہونے کا الزام لگاتے اور اپنی منہ زور کرپشن سے نظریں ہٹا لیتے،نجانے کیوں علیمہ خان کو عُمربیتے دن کے ساتھ پیسے والی نہیں جانتے،مگر خود ایک سال کے تھے کہ کروڑوں کے ہوگئے،دوسروں کو جادوئی مشینوں کے طعنے دینے والے نجانے آپ کس جادوئی طریقے سے امیر سے امیر تر اور کروڑوں میں ہوگئے،جو کہ اب ایک معمہ اور کہانی کا روپ دھارے ہوئے ہے۔70سال اِس ملک کی جڑوں میں بیٹھے،اسے توڑے ،نجانے عمران کے اِسے جوڑنے پر اتنے خائف کیوں ہیں؟میرے دیس کی آن بان شان افواج پاکستان کے” کھتے ”کیوں پڑے ہوئے ہیں،نجانے کس خوف کے سائے میں مبتلا حکومت و اداروںکو”بلیک میل” کرنے کی خفت سے دوچار ہیں،نجانے اس ارض وطن کی حکومت و اداروں سے کیا چاہتے ہیں کہ اِن کے خلاف ٹرین مارچ پر اُتر آئے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیںیہ اپنی ”کرپشن کہانی”پرکوئی ریلیف چاہتے ہوں، معافی کے درخواستگزار ہوں،کسی این آراویا پلی بارگین کے منتظر ہوں،تبھی تو کہہ رہے ہیں کہ ”عمران کہتا کہ این آراو نہیں ملے گاتو پھر دہشت گردوں،جہانگیر ترین،علیمہ خان کو کیوں دیا؟”
میرا حکومت سے کہنا ہے کہ اِن کو NRO دے دو،کسی بھی طریقے سے،جس کی قانون میں اجازت ہو،اِن کھوٹے سکوں کو جو اپنے مُلک کے کسی کام نہیں آئے،اِس قوم کے کس طرح ہمدرد ٹھہرے؟اِن کو پکڑ کر ہم نے کیا لینا،اِن کو جیلوں میں ڈال کر اِن کی کون سی سجی تیار کرنی،کون سی پیسٹری ،کیک بنانا،اِن کو چھوڑ دو ،قانون میں رعائت دیکھ کر،ملک وقوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی وصول کرکے یا پلی بارگین کے ذریعے جو ملتا لے کر،اِس لیے کہ یہ مُلک ایسے ”بااثر””صاحب کمال”لوگوں کا ”مسکن” ٹھہرا،جس میں اِس طرح کے شغل عرب مہمانوں کے بے دریغ تلور کے شکار کی طرح شغل ٹھہرا،مُلک کو نقصان پہنچے یا کوئی جان کو جائے،انہیں کیا،انہیں تو بس اپنے مفادات ،مشغولات سے غرض ہے ،عوام سے کس کوسروکار؟اِن کے منہ سے نکلی عوام کی بھلائی ،بہتری کی سب باتیں ایک دھوکااور سراب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اِن کو اپنی ”ضد” چھوڑ کر ملک کے ”وسیع ترمفادات” میں” قانون و انصاف” کی تمام دھجیاں اُڑاتے این آراو دے دو،اِس لیے کہ یہ اِس ملک میںایک ”عمدہ کام””محبوب مشغلہ” اور”اعلیٰ روایات” بھی ہے ،سُو قدم بڑھائو عمران خان!اِس ملک کے سارے چور اچکے،ڈاکو لٹیرے،آپ کی طرف دیکھے ،بڑھے،آپ کے حکم کے انتظار میں ہیں،مُلک کے” وسیع تر فائدے” میں اِن کو این آر او دے دو،نہیں تو یہ کسی کام کے نہیں رہیں گے اور جو اِن کو ذلت اٹھانی پڑے گی وہ الگ ہے۔