برطانیہ (جیوڈیسک) یورپی یونین کے رہنماؤں کی اکثریت کے مطابق برطانیہ کا یونین سے کسی باقاعدہ معاہدے کے بغیر اخراج یا ’نو ڈیل بریگزٹ‘ اب تقریباﹰ یقینی ہو گیا ہے۔ بارہ اپریل کی نئی ڈید لائن ختم ہونے میں بھی اب صرف دس دن باقی رہ گئے ہیں۔
دو ہزار سولہ میں ہونے والے بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد برطانیہ کو گزشتہ ماہ کی 29 تاریخ تک یورپی یونین سے نکل جانا تھا لیکن لندن میں ملکی پارلیمان نے وزیر اعظم ٹریزا مے کی برسلز کے ساتھ طے پانے والی بریگزٹ ڈیل کو تین مرتبہ مسترد کر دیا تھا۔
اس کے بعد وزیر اعظم مے نے برسلز میں یورپی یونین کی قیادت سے درخواست کی تھی کہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن 29 مارچ سے بڑھا کر 30 جون تک کر دی جائے۔ لیکن یورپی یونین نے صرف 12 اپریل تک کی توسیع پر اتفاق کیا تھا، اس لیے کہ اس سے زیادہ تاخیر سے خود یونین کے لیے کئی قانونی مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں۔
اب جبکہ لندن حکومت کے لیے کسی باقاعدہ معاہدے اور اس کی ملکی پارلیمان کی طرف سے منظوری کے بعد یونین سے اخراج کے لیے نئی ڈید لائن پوری ہونے میں صرف دس دن باقی رہ گئے ہیں، کئی یورپی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اب ’نو ڈیل بریگزٹ‘ تقریباﹰ یقینی ہو چکا ہے۔
لندن حکومت کے پاس برسلز کو بریگزٹ سے متعلق نئی تجاویز پیش کرنے کے لیے اتنا کم وقت بچا ہے کہ ایک اعلیٰ یورپی اہلکار نے تو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا، ’’برطانیہ کو اب ایک خطرناک صورت حال کا سامنا ہے۔‘‘
یورپی پارلیمان کے بریگزٹ سے متعلقہ امور کے رابطہ کار گائی فیرہوفشٹٹ کے مطابق، ’’کل بدھ تین اپریل کو جب پارلیمان کا ایک اور اجلاس ہو گا، تو یہ برطانیہ کے لیے آخری موقع ہو گا کہ وہ یا تو بریگزٹ کے بارے میں پائے جانے والے جمود کو ختم کرے یا پھر نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔‘‘ گائی فیرہوفشٹٹ نے کہا، ’’لندن میں ایوان زیریں نے ایک بار پھر بریگزٹ سے متعلق تمام تر امکانات کے خلاف اپنی رائے دی ہے اور اب ’نو ڈیل بریگزٹ‘ یا ’ہارڈ بریگزٹ‘ بظاہر ناگزیر ہو گیا ہے۔‘‘
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
بریگزٹ کے معاملے میں جس تعطل اور جمود کا مظاہرہ برطانوی پارلیمان کی طرف سے کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے ایک باقاعدہ معاہدے کے ساتھ بریگزٹ کے سلسلے میں یورپی یونین کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوتا جا رہا ہے۔
یورپی پارلیمان کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن ژینس گائیر نے منگل یکم اپریل کی رات کہا، ’’برطانوی پارلیمان ایک مضحکہ خیز انداز میں خود اپنا ہی راستہ روکے ہوئے ہے۔ بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن جو 12 اپریل کو پوری ہو رہی ہے، اگر لندن نے اس میں دوبارہ توسیع کی درخواست کی، تو یورپی یونین کو ایسی کسی توسیع پر صرف اسی صورت میں رضامندی ظاہر کرنا چاہیے کہ برطانیہ میں بریگزٹ سے متعلق ایک نیا عوامی ریفرنڈم بھی کرایا جائے۔
بریگزٹ کے بارے میں اسی قطعی غیر واضح صورت حال کے باعث بارہ اپریل کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے صرف دو روز قبل، یورپی یونین نے دس اپریل کو اپنا ایک ہنگامی سربراہی اجلاس بھی بلا رکھا ہے۔ یہ اجلاس اس پس منظر میں بلایا گیا ہے کہ اگر برطانیہ کسی ڈیل کے بغیر بارہ اپریل کو یورپی یونین سے نکل گیا، تو برطانیہ اور باقی ماندہ یورپی یونین کو دو بڑے تجارتی ساتھیوں کے طور پر شدید نوعیت کے اقتصادی نقصانات اور بدنظمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔