اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی سیاست زوالفقار علی بھٹو کے بغیر نا ممکن ہے مگراس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بھٹو صاحب ایشاء کے سب سے بڑے اور زہین لیڈر مانے جاتے ہیں ،دنیا عظیم کے بڑے بڑے لیڈروں میں ان کا نام آج بھی نہایت عزت و احترام سے لیا جاتاہے ،یہ ان کی ملک وقوم کے لیے کی جانے والی اس عظیم جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ زوالفقارعلی بھٹو شہید اب اس ملک میں ایک نظریے کا نام بن چکا ہے ، کیونکہ وہ ایک عالمی رہنما ہی نہیں تھے بلکہ وہ امت مسلمہ کے ہیروبھی تھے جس نے پہلی بار پوری امت مسلمہ کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کیااور پاکستان کو ایک اٹیمی قوت بنانے کے ساتھ پوری قوم کو ایک متفقہ آئین کا تحفہ بھی دیا،پاکستان کے سابق وزیراعظم اور اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی زوالفقارعلی بھٹو کی چالیسیویں برسی کو4 اپریل کے دن ان کے کروڑوں پیروکار جس جنونی انداز میں مناتے ہیں اسے یہاں لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہوگا، اس روزپیپلزپارٹی کا ہر ورکر اپنے اپنے انداز میں زوالفقارعلی بھٹو سے اپنی اندھی محبت کا بھرپور اظہارکر تا ہے۔
یہ وہ دن ہوتاہے جب زوالفقارعلی بھٹو کے چاہنے والے ملک بھر سے ٹولیوں کی صورت میں گڑھی خدابخش پہنچتے ہیں اور ان کی قبر پر حاضری دے کراپنی بھرپور عقیدت کااظہار کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان سب عقیدت مندوں کو یہ سب کچھ کرکے کیا ملتاہے ؟ آخر زوالفقارعلی بھٹو میں ایسی کیاپراسرارقوتیں تھیں جس کی وجہ سے آج چالیس کے بعدبھی لوگ ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی کے اس دن جب انہوں نے پیپلزپارٹی کی بنیادوں کورکھا تھا،ان تمام باتوں کو جاننے کے لیے کسی بھی فرد کے لیے بھٹوازم کاجاننا اور سمجھنابہت ضروری ہے جواس قدر مشکل ہے کہ جسے سمجھنے کے لیے ملک بھر کی لائبریاں اور دانشوروں کے دماغ بھی چھوٹے پڑگئے ہیں اور اس قدر آسان کے جسے اس ملک کے عام شہریوں ،کسانوں اور مزدوروں نے پلک جھپکتے میں ہی سمجھ لیا تھا کہ بھٹوازم آخرکس چیز کا نام ہے یہ ہی وہ پراسرارقوتیں ہیں جس کی وجہ سے یہ کہاجاتاہے کہ ،تم کتنے بھٹو ماروگے ۔۔۔ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔۔۔۔ ملکی سیاست میں قائد عوام کا لقب پانے والے سابق وزیراعظم پاکستان زوالفقار علی بھٹو5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ان کے والد سرشاہنوازبھٹوکا نام بھی بمبئی اور جوناگڑھ کی ریاستوں میں ایک بہترین دانشوروں اور سیاستدانوں کی فہرست میں جانا تھا۔
زوالفقارعلی بھٹو نے 1950میں برکلے یونیورسٹی سے سیاست میں گریجویشن کی 1952میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری اپنے نام کی ،اور1952میں ہی مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا کا امتحان بھی پاس کیاوہ کچھ عرصے تک مسلم لاء کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچراربھی رہے اور1953میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی ،اس کے بعد جب انہوں نے عملی سیاست کا آغازکیا،اور 1958تا1960تک وہ ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت کے عہدے پر فائز رہے اور وقت کے ساتھ مختلف وزارتوں سے منسلک رہے جبکہ جون 1963تاجون 1966تک وہ وزیرخارجہ رہے یہ وہ دور تھا جب انہوں نے بین الالقوامی سطح پر پاکستان کا ایک پروقار چہرہ دنیا بھرکو روشناس کروایااور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کا نام پوری دنیا میں چمکنے لگا کیونکہ مسٹر بھٹو جب دنیاعالم کے پلیٹ فارم پربولتاتھا تو پوری دنیاسنتی تھی اس کے بولنے پر ہرطرح سناٹاسا چھاجاتاہے ،اس کے بعد شہید زوالفقارعلی بھٹو نے دسمبر1967میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی کیونکہ زوالفقاررعلی بھٹواس ملک کی عوام کو ایک ایسا پلیٹ فارم دینا چاہتاتھاجہاں ہر ایک کوانصاف مل سکے اور جہاں ہر ایک آوازکو باآسانی ملکی ایوانوں میں پہنچایا جاسکے یہ ہی سوچ کر پاکستان پیپلزپارٹی کا وجود پاکستان کا مقدربن گیا1970کے عام انتخابات میں دن رات محنتوں کے نتیجے میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابیاں سمیٹی ،شہید زوالفقارعلی بھٹو کی حقیقی کامیابیوں کا آغازشروع ہوااور وہ دسمبر1971تا13اگست 1973تک صدرمملکت کے عہدے پر فائز رہے اور پھر 14اگست 1973کوخود بھٹو صاحب کی قیادت میں ہی بننے والے نئے آئین کے تحت انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف بھی اٹھالیا،یہ وقت جہاں پیپلزپارٹی کے عروج اور ملکی کامیابیوں کا سفر تھا وہاں کچھ ایسے مخالفین بھی تھے جو زوالفقارعلی بھٹو کی کامیابیوں کو اپنی ناکامیاں تصور کرتے تھے جو ہر وقت بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے بناتے رہتے تھے 1977کے عام انتخابات میں دھاندلی کے شور اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خانہ جنگی کی صورتحال کے سبب افراتفری کا ایک ماحول پیداکردیا گیا اور1977میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیاگیا اور ایک ڈکٹیٹر کی جانب سے مسٹر بھٹو کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں گرفتار کرلیاجاتاہے اور ایک منعظم سازش اور ملی بھگت کے ساتھ 18مارچ 1978کو ہائی کورٹ محسن پاکستان کو سزائے موت کا حکم سنا دیتی ہے اور اس کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے فروری 1979کو سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے کی توسیق کردیتی ہے اور پھر 4اپریل کو مسٹر بھٹوکو راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
شہید زولفقارعلی بھٹو کی شہادت اور عدالتی قتل کے بعد دشمن نے سمجھا کہ بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی مشکلات اب کچھ کم ہوجائینگی مگر ایسا نہ ہوا۔۔۔ او رمسٹربھٹو کو مارنے والے خود ہی جیتے جی مرنے لگے کیونکہ مسٹر بھٹو ایسی پراسرارقوتوں کا مالک تھا جو اپنے اپنی علمی صلاحیتوں کی بدولت اپنے مخالفین کو کھٹکنے لگا، زوالفقارعلی بھٹو شہید نے ملک وقوم کے لیے کبھی اپنے نظریے پر سمجھوتہ نہیں کیا ہمیشہ ملکی مفاد کے لیے ہی سوچا اور ہمیشہ اپنے کارکنوں کو عزت دی ، یہ بھٹو صاحب کا ایک عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے کالجز میں یونین سازی کو فروغ دیاجس کی وجہ سے کالجز کی سطح پر لوگوں میں سیاسی شعور اجاگر ہوا،یہ ہی وجہ ہے کہ وہ صرف کسانوں ،ہاریوں اور عام شہریوں کے لیڈر نہیں تھے بلکہ آج کل کا ایک نوجوان بھی زوالفقارعلی بھٹو کو ہی اپنا آئیڈیل مانتاہے کیونکہ آج پاکستان کے نوجوانوں میں یہ شعور گھر کرچکاہے کہ اگر زوالفقارعلی بھٹوکو کچھ اوروقت مل جاتاتو آج پاکستان ایشن ٹائیگر بن چکاہوتا، ان کی صاحبزادی اور دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے جس انداز میں پاکستان پیپلزپارٹی کی باگ ڈور سنبھالی اور جو فلسفہ بھٹو نے شروع کیا تھا اس کو اس قدر خوبصورتی سے آگے بڑھایاکہ دشمن کی سات نسلوں نے کان پکڑ لیے تھے ملک دشمنوں کو یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ بھٹو ابھی زندہ ہے اورمحترمہ بے نظیر کے لہجے اور کارناموں میں شامل ہے دشمنوں نے ان کو بھی بھٹوازم سے ہٹانے کے لیے دیواریں کھڑی کرنا شروع کردی اور ان کے دوادوار میں ایسی ایسی تکلیفیں پہنچائی کہ اگر کوئی اور ہوتاتو سیاست کو خیر آباد کہہ دیتا مگر ایک خاتون نے اپنی زندہ دلی اور بہادری کا لوہامنوایامگر ایک روز دشمن کی بندوق نے ان کو بھی اپنے راستے سے ہٹادیااور شہید زوالفقارعلی بھٹو کی صاحبزادی کو بھی شہید کردیا گیا،بے نظیر بھٹو نے اپنے والد شہید زوالفقارعلی بھٹوکو اقتدار کے ایوا ن سے جیل منتقل ہوتے دیکھااور ان کی پھانسی کے بعد جس دلیری اور بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
آج بھٹو خاندان کے اس عظیم فلسفے کو نوجوان لیڈر جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے اور شہید زوالفقارعلی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو لیکر چل رہے ہیں،بلاول بھٹوجب زوالفقارعلی بھٹو اور اپنی مرحوم والدہ بے نظیر بھٹو کا مشن لیکر جب سیاست کے میدان میں اترے توبھٹوخاندان کے لاکھوں کروڑوں جانثاروں نے انہیں خوش آ مدیدکہاہے اور ان کی بھرپور پزیرائی کی ہے ، اور ہمیشہ کی طرح آج بھی قوم بھٹو خاندان کے اس عظیم سپوت کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اس با رقوم کو ئی نقصان برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے اور اپنے نوجوان قائد بلاول کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے ۔شہید زاولفقارعلی بھٹو کو غربت کا خاتمہ کرنے پاکستان کو ترقی پزیر ممالک سے نکال کرترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ڈالنے اورملکی دفاع کو مظبوط بنانے کی سزادی گی،مگر آج ان کا سیاسی قتل کرنے والے جنرل ضیاء الحق اور اس وقت کے چیف جسٹس انوارالحق اور مولوی مشتاق کو شاید ہی کوئی جانتاہومگر شہید زوالفقارعلی بھٹو کا نام آج بھی اس ملک کی گلی کوچوں میں گونج رہاہے اور رہتی دنیا تک گونجتارہے گا۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔