رینجرز کا قیام امن میں قابل تعریف کردار

Rangers

Rangers

تحریر : قادر خان یوسف زئی

غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں کراچی میں رینجرز کی واپسی کے حوالے سے ایک خبر آئی کہ پاکستان اور انڈیا کی سرحد پر کشیدگی کے بعد سندھ رینجرز کی جانب سے محکمہ داخلہ کو ایک خط لکھ کر آگاہ کیا گیا ہے کہ رینجرز کے آپریشنل فرائض ختم کیے جارہے ہیں جس کے بعد غیر ملکی سفارتخانوں، اہم ملکی تعنصیبات پر اب پولیس تعینات کردی گئی ہے۔ دوسری جانب سندھ رینجرز کے ایک اعلامیے میں اس خبر کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان رینجرز (سندھ) کے دستے کراچی اور اندرون سندھ میں بدستور اہم تنصیبات،غیر ملکی سفارتخانوں اور دیگر ذمہ داری کے علاقوں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی میں قیام امن کے لئے پاکستان رینجرز (سندھ) کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ آج اگر ہم کراچی میں امن ، سکون اور جرائم پیشہ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے کاروائیوں میں کمی کا اظہار کرتے ہیں تواس سہرا پاکستان رینجرز (سندھ) کو جاتا ہے ۔ گو کہ رینجرز کو کراچی میں قیام امن کے لئے کئی عشروں سے لایا گیا ہے ۔ لیکن گزشتہ حکومت نے کراچی میں بڑھتے جرائم کی روک تھام کے لئے پاکستان رینجرز (سندھ) کو خصوصی اختیارات دیئے اور کراچی میں مختلف فیز میں رینجرز ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھرپور کاروائیاں کرکے شہر کی رونقوں کو بحال کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ۔ گو کہ ماضی میں فوجی آپریشن کا رخ سندھ میں بڑی مچھلیوں اور ڈاکوئوںکے خلاف کاروائیوں سے ہوتے ہوئے مکمل طور پر کراچی آپریشن میں تبدیل ہوگیا تھا اس لئے ایم کیو ایم کو رینجرز کے کراچی آپریشن پر سخت تحفظات تھے کہ کراچی آپریشن ایک بار پھر متحدہ کے لئے درد ِ سر بن جائے ۔
کراچی آپریشن کی خصوصی بات یہ تھی کہ تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لیا گیا اور بلا امتیاز رنگ و نسل و جماعت جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ کاروائیوں کرنے لئے حمایت حاصل کی ۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ جرائم پیشہ عناصر کی بڑی تعداد سیاسی جماعتوں کی چھتری تلے پناہ لئے ہوئے تھے ۔ یہ عناصر اس قدر طاقت ور ہوچکے تھے کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے سینکڑوں پولیس اہلکار قانون کی رٹ قائم کرنے کے بجائے مخبری کرکے آپریشن کی اطلاع دے دیا کرتے تھے ۔ رینجرز نے خصوصی حکمت عملی کے تحت سیاسی جماعتوں کے اندر چھپے عناصر کے نچلے درجے کے جرائم پیشہ کارکنان کو گرفتار کیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں آپریشن کرکے ان سے اہم معلومات حاصل کی اور پھر دوسرے مرحلے میں عہدے داران اور سیاسی دفتر کے نام پر بنے جرائم کے اڈوں کے خلاف کاروائیاں کیں ۔ دوسرے مرحلے میں جب کراچی کی اسٹیک ہولڈر جماعتوں کو اندازہ ہوا کہ پاکستان رینجرز (سندھ) کا کراچی آپریشن اور سخت ہوگا اور بڑے بڑے نام ان کی گرفت میں آسکتے ہیں تو کراچی پر قبضے کے دعوے داروں نے فوراََ راہ فرار اختیار کی اور بیرون ملک روپوش ہو گئے۔

کراچی کو خصوصی اختیارات کے تحت 90روزہ ریمانڈ بھی دیئے گئے اور اس کے علاوہ رینجرز کو کراچی میں موجودگی کے لئے کچھ ماہ بعد محدود اختیارات ملتے ہیں۔ مستقل بنیادوں پر رینجرز نہ ہوتے ہوئے بھی وزرات داخلہ کے نوٹیفکشن کی پابند ہے ۔ کچھ عرصہ قبل رینجرز اور صوبائی حکومت کے درمیان بعض معاملات پر سرد مہری آئی تھی ۔ جس پر رینجرز کی موجودگی کے لئے نوٹفکیشن کے اجرا میں تاخیر ہوئی ۔ جس پر رینجرز نے کراچی سے اپنی تمام نفری کو واپس لیا تھا جس سے اہل کراچی میں سخت خوف وہراس پھیل گیا تھا ۔ بعدازاں معاملات کی درستگی کے بعد رینجرز نے انتظام سنبھالا ۔ رینجرز ، حکومت سے پولیس کی طرح اختیارات چاہتی رہی ہے لیکن پولیس اختیارات دینے ے بجائے انہیں 90روزہ طویل ترین ریمانڈ اور سینٹرل جیل میں خصوصی بیرک دے دی گئی تھی تاکہ وہ تفتیش کے عمل کو مضبوط بنا سکیں ۔ خصوصی عدالتوں کے قیام اور رینجرز کے پبلک پراسیکوٹر کی تعیناتی میں بھی تاخیری حربے استعمال ہوئے۔ لیکن آپریشن میں ایک مرحلے پر سیشن کورٹ کی سطح پر مقدمات کو تیزی سے چلانے کی کوشش کی گئی لیکن مقدمات کی بھرمار سمیت کئی ایسے مسائل تھے جس کی وجہ سے تفتیش کا عمل سست ہوگیا ۔ مقدمات میں تاخیر کا فائدہ عمومی طور پر ملزم کو پہنچتا ہے اس لئے رینجرز کی جانب سے گرفتار کئے جانے والے ملزمان کی بڑی تعداد دوبارہ ضمانتوں پر جیلوں سے باہر آگئی ۔

پاکستان رینجرز (سندھ) نے کراچی میں اثر رکھنے والی سیاسی جماعتوں خاص کر متحدہ قومی موومنٹ ، پاکستان پیپلز پارٹی ، لیاری گینگ وار ، عوامی نیشنل پارٹی مسلح ونگ ، سنی تحریک ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان ،لشکر جھنگوی، کالعدم لشکر محمد سمیت کئی مذہبی گروہوں کے جرائم پیشہ عناصر کے گرد قانون کا شکنجہ سخت کیا ۔ کراچی آپریشن سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ رہی کیونکہ جرائم پیشہ ، بھتہ خور ، ٹارگٹ کلرز سمیت اغوان برائے تاوان سمیت کئی سنگین وارداتوں میں ملوث ملزمان کا تعلق مسلح ونگ اور بیرون ملک موجود ٹارگٹ کلرز گینگ سے نکلا ۔ بعد ازاں متحدہ میں باہمی اختلافات میں نظرہاتی گروپ اور ایک علیحدہ جماعت پاک سرزمین پارٹی وجود میں آئی ۔لیاری گینگ کا ہم سرغنہ عزیز بلوچ غیر ملکی ایجنٹ نکلا اور انٹرپول کی مدد سے گرفتار کرلیا گیا ۔ لیاری گینگ وار سے اہل لیاری کو آزاد کرایا گیا ۔ پشتون علاقوں میں کالعدم جماعتوں نے سر اٹھایا ہوا تھا اور بھتوں کا خطرناک سلسلہ شروع کیا ہوا تھا ۔ اس کو روکنے کے لئے رینجرز نے تاریخی آپریشن میں ہائی ڈرینڈنٹ مافیا کے خلاف کاروائی کرکے اربوں روپوں کی فنڈنگ نہ صرف روکی بلکہ ان علاقوں سے کالعدم تنظیموں کی جڑیں بھی اکھاڑ پھینکیں۔ کراچی کے تاجروں کو بھتہ خوروں سے نجات دلانے کے لئے انڈسٹریل ایریا میں خصوصی چوکیاں قائم کیں ۔ جس سے تاجروں میں اعتماد بحال ہونا شروع ہوا۔

رینجرز کی ان کوششو ں کو سبوتاژ کرنے کے لئے مذہبی رہنمائوں پر قاتلانہ حملے سمیت پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ، پولیو ٹیم کے اراکین پر حملے سمیت کراچی کو کئی بار یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی جسے پاکستان رینجرز (سندھ) نے ناکام بنایا ۔اس وقت کراچی میں 80فیصد کے قریب مکمل امن قائم ہے ، ٹارگٹ کلنگ کا سونامی رک چکا ہے ،بھتہ خوری کا طوفان تھم رہا ہے۔ سیاسی آزادی کی وسعت میں اضافہ ہورہا ہے تو کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ نوگو ایریاز کا مکمل خاتمہ کردیا گیا ۔ یہ پاکستان رینجرز (سندھ) کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ کراچی سے نوگو ایریاز کا خاتمہ کرکے کراچی سے وار زون ختم کردیئے گئے۔اہل کراچی چاہتے ہیں کہ جب بھی رینجر ز کی واپسی کا فیصلہ کیا جائے تو پولیس کو غیر سیاسی اور عوام میں ان پر بھروسہ بحال ہو۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی