کیلیفورنیا (جیوڈیسک) اسٹراٹولانچ ہوائی جہاز مصنوعی سیاروں کو خلاء میں پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس ہوائی جہاز کے چھ انجن اور 28 پہیے ہیں جبکہ اس کے پروں کا پھیلاؤ ایئربس کے A380 جہاز سے بھی دو گُنا ہے۔
اسٹراٹولانچ سسٹمز نامی کمپنی کے مطابق ایک فٹبال کے میدان سے بھی زیادہ پروں کا پھیلاؤ رکھنے والے اس ہوائی جہاز نے کیلیفورنیا کے موہاوی صحرا میں واقع ایک ایئرفیلڈ سے اڑان بھری اور ڈھائی گھنٹے کی پرواز کے دوران تجرباتی مشقیں کیں۔ اسٹراٹولانچ سسٹمز نامی یہ کمپنی خلا میں سامان کی ترسیل کے نظام کے لیے کام کر رہی ہے اور یہ پراجیکٹ اسی کمپنی کا ہے۔
اپنی اولین پرواز کے دوران اس جہاز نے 304 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار حاصل کی جبکہ یہ 17 ہزار فٹ یا قریب 5200 میٹر کی بلندی تک گیا۔ 117 میٹر چوڑے اس ہوائی جہاز کا وزن 220 ٹن ہے۔ اس جہاز کے دو مرکزی ڈھانچے یعنی سامان یا مسافروں کو لے جانے والے حصے ہیں۔ اس کے 28 پہیے ہیں جبکہ اس میں بوئنگ 747 ہوائی جہاز میں استعمال ہونے والے چھ انجن نصب ہیں۔
117 میٹر چوڑے اس ہوائی جہاز کا وزن 220 ٹن ہے۔ اس جہاز کے دو مرکزی ڈھانچے یعنی سامان یا مسافروں کو لے جانے والے حصے ہیں۔
اسٹراٹولانچ ہوائی جہاز کو ایک ایسے موبائل پلیٹ فارم کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جو خلاء میں مصنوعی سیارے پہنچانے میں معاون ہو گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں یہ خلاء میں مسافر بردار شٹلز بھی پہنچا سکے گا۔
اسٹراٹولانچ سسٹمز کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ژاں فلائڈ کے مطابق، ’’آج کی پرواز زمین پر موجود لانچنگ سسٹمز کا متبادل تیار کرنے کے ہمارے مشن کو آگے بڑھانے میں آگے کی جانب ایک قدم ہے۔‘‘
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
یہ پراجیکٹ مائیکروسافٹ کمپنی کے شریک بانی پال ایلن نے شروع کیا تھا جن کا گزشتہ برس اکتوبر میں انتقال ہو گیا تھا۔
پال جی ایلن ٹرسٹ کی سربراہ اور پال ایلن کی ہمشیرہ جوڈی ایلن کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’ہم سب جانتے ہیں کہ پال آج کی تاریخی کامیابی کو دیکھ کر کتنا زیادہ خوش ہوتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ ہوائی جہاز انجینیئرنگ کا ایک زبردست شاہکار اور کامیابی ہے اور ہم اس کے لیے کام کرنے والے ہر ایک فرد کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔