بنی چوک سے پھول

Hamza Shahbaz

Hamza Shahbaz

تحریر : انجینئر افتخار چودھری

فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کی معاملہ ریاست مدینہ کے تاجدار محمد عربی ۖ کے پاس لایا گیا سفارش تگڑی تھی آپ سے درخواست کی گئی کہ اسے معاف کر دیا جائے اللہ کے پیارے نبی کا جواب تھا کہ تم میں سے پہلی قومیں اس لئے برباد کر دی گئیں کہ وہاں طاقتور کے لئے ایک قانون اور کمزور کے لئے دوسرا ہوتا تھا پھر فرمایا اس فاطمہ کی جگہ اگر میری فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو میں یہی حکم دیتا۔جنت کی سردار خاتون کے بارے میں اللہ کے پیارے نبی نے جو کچھ کہا اس کے بارے میں سوچئے،ڈریے۔جناب حمزہ شہباز شریف کو اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی بہنوں کو نوٹس دیا گیا۔نیب نے منی لانڈرنگ کے کیس میں جناب شہباز شریف کی بیٹیوں کو نوٹس بھیجے ہیں۔حمزہ شہباز کے دکھ سے آگاہ ہوں وہ فرما رہے تھے کہ کیا مہذب معاشروں میں خواتین کو نوٹس بھیجے جاتے ہیں ۔ حمزہ صاحب مہذب معاشروں میں نکاح کر کے عورتوں کو زلیل بھی نہیں کیا جاتا عائشہ احد کون تھی اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ۔کیا مہذب معاشرے اس قسم کا ظلم کرتے ہیں۔عورت کو کھلونا بنانے کا کام کیا اچھے معاشروں کی روائت ہے۔

ایک صاحب نے جواب میں ماڈل ٹائون کی اس شہید بیٹی کی تصویر لگا دی اور کہا جی نہیں مہذب معاشرے میں نوٹس نہیں ،گولی ماری جاتی ہے۔سانحہ ء ماڈل ٹائون کی بات ہوئی تو یاد آیا آج تیرہ اپریل ہے آج ہی کے دن جلیانوالہ باغ میں انگریز بریگیڈئر ڈائر نے کوئی پچیس ہزار کے قریب ان سکھوں پر گولی چلا دی جو اپریل کے ان دنوں میں بیساکھی منانے امرتسراکٹھے ہوئے تھے انسانی تاریخ میں ایسا ظلم کم ہی ہوا ہے۔یہ وہ انگریز ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کے کتے کی بھی تکلیف نہیں برداشت کرتا۔شائد عراق افغانستان لیبیا شام میں مرنے والے کا درجہ اس نجس جانور سے کم تھا۔بیساکھی سکھ کیلینڈر کا پہلا مہینہ ہے جیسا عیسوی میں جنوری اسلام میں محرم ہوتا ہے ۔کہتے ہیں مشین گن سے کوئی پندرہ سو کے قریب لوگ مار دئے گئے۔ڈائر کا خیال تھا کہ اگر میدان میں گاڑیاں داخل ہو جاتیں تو میں توپوں سے اڑا کے رکھ دیا۔وہ واقعہ انگریز کے ظلم و جبر کی زندہ مثال ہے ۔جس کا بدلہ ایک زخمی اودھم سنگھ نے اس قاتل کو 1940میں لندن جا کر جہنم واصل کیا۔جلیانوالہ باغ آج ہی کے دن ہوا اور آج بیساکھی بھی ہے۔

ہم سکھوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔اور انہیں بیساکھی کیی مبارک باد بھی دیتے ہیں۔دوستو سانحہ ء ماڈل ٹائون بھی اس سے کم نہیں پر امن مظاہرین پر پنجاب پولیس نے وحشیانہ حمل کیا ۔جن خواتین کی حرمت کی بات خاندان شریفیہ کے چشم و چراغ کر رہے ہیں اسی طرح کی بیٹیوں کے منہ پر گولیاں ماری گئیں اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔جنرل ڈائر جو تھا تو کرنل اسے انگریز جنرل اڈوائر نے بریگیڈئر کے رینک میں ترقی دے کر یہ مشن سونپا۔یہاں یہ کام مشتاق سکھیرا کو دیا گیا کہ جائو جا کر مارو۔ایسے لوگوں کو انعام و اکرام دینے میں بادشاہ کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وزیرستان میں مسلمانوں پر انگریز دور میں جو ظلم ہوا اس آپریشن کے انچارج جنرل ایوب خان تھے جن کی اولادیں آج بھی ان کی ٹوپی کے زور پر انتحاب لڑتی ہیں لیکن جیت بیٹ پے ہی ملتی ہے۔

یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ قائد اعظم نے ایوب خان کے بارے میں یہ ریمارکس دئے تھے کہ یہ شخص اقتتدار کا بھوکا ہے اس سے بچ کے رہئے۔اور پھر جس طرح شبخون مارا گیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔سچ کہا قائد اعظم نے یہ حرس اور یہ لالچ ان کی نسلوں میں موجود ہے جو کسی بھی پارٹی کا اقتتدار ہو اس میں موجود ہوتی ہے ۔ایک بار گوہر ایوب نے ہری پور کا نام نواز شریف رکھنے کی تجویز دی تھی واہ کیا چاپوسی تھی اور کیا خوش آمد ہری پور کا نام بہادر آباد رکھئے جس نے بھیا کو کرسی ء اقتتدار پے بیٹھا دیکھ کر کہا تھا نیرنگی ء سیاست دوراں تو دیکھئے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے صد حیف اس حرس اور اس لالچ کا۔تا حیات نا اہل حکمرانی کرتے ہیں اور ہری پور کے علاقے میں ان کی مرضی کے بغیر پٹواری بھی نہیں لگ سکتا۔انگریز کے پٹھو ئوں کے راج سے نہ قبل از آزادی چھوٹ تھی اور نہ ہی اب،لوگ تو اب بھی غلام ہیں۔جو سر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے زندہ باد کا نعرہ لگانے والے پٹھو اسے دبوچ لیتے ہیں۔دیکھ لیجئے کتنے راجہ ،چودھری مخدوم جو انگریز کے ناموں پر اولادوںکا نام رکھتے رہے ان کا پاکستان میں کیا مقام ہے۔خانپور کے راجائوں کے نام بھی جارج اور ایرج تھے۔کیانی گگھڑوں کے پیشوائوں نے بالاکوٹ میں سید احمد شہید کو شہید کرنے میں فوجیں بھیجیں لوگ بھرتی کئے انگریز کی فوج میں جوان بھرتی کرانے پو دو آنے حاصل کرنے والوں کو ٹو آنہ کہا گیا۔کیا یہ راج ختم ہے کیا ہر آنے والی تیرہ اپریل ہمیں یہ یاد نہیں دلاتی کہ ظالم زندہ ہیں لٹیرے موجود ہیں جو ارمانوں پر مشین گنیں کھول رہے ہیں حسینیت اور یزیدیت اور کیا ہے۔

انڈیا نے بہترین کام کیا اس نے سب ریاستیں ختم کیں سب جاگیروں کا خاتمہ کیا ہمارے ہاں یہ لوگ اس لالچ میں شریک پاکستان ہوئے کہ ان کی ریاستوں کا دفاع کیا جائے گا۔کہتے ہیں سر سکندر حیات جو ٹوڈی کہلائے جاتے تھے یونینسٹ مسلم لیگ کے خلاف جلوس نکال رہے تھے تو وہ شرائط پر پاکستان میں شامل ہونے پر رضامند ہوئے تو اسی جلوس کے شرکاء نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔جاگیریں ختم ہوں بارہ ایکڑ میں بانٹی جائیں تا کہ ووٹ آزاد ہو جمہوریت پنپ سکے یہ کیا جو کل مشرف کے ساتھ تھے بعد میں بی بی پھر نواز اور پھر موجودہ پارٹی میں جہاں بھی ہوں اقتتدار میں ہوں۔قوم کو کوئی جی قویرہ چاہئے جو لڑتا لڑتا مر جائے لیکن آمروں کی نیندیں حرام کر دے تیرہ اپریل کے دن جہاں ایک طرف جبر تھا تو دوسری طرف سکھ قوم کے بہادر شہید اودھم سنگھ کے بدلے کی آگ کو بھی سلام کہئے۔سکھوں کا کمال یہ ہے کہ یہ لوگ بدلہ لینا جانتے ہیں۔بہادر قومیں بدلہ لیتی ہیں ۔اندرا گاندھی نے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو شہید کیا اس کا بدلہ سکھوں نے دو قومی نظریہ کو خیلیج بنگال میں ڈبونے کا دعوی کرنے والی کو بھون کر لیا۔بہادر اور دلیر قومیں بدلہ لیتی ہیں ۔ہمارے بدلے بھی سر پر ہیں سقوط ڈھاکہ کا بدلہ بھی انہی بدلوں میں سے ایک ہے جو انڈیا سے لینا باقی ہے ۔ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنوں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا اور امید ہے ہم اپنی زندگی میں اس ہزیمت اور شکست کا بدلہ لیں گے ہم نہ ہوں گے ہماری نسلیں لیں گی لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم بھول جائیں۔گانے گیت فلمیں چوڑیاں کنگن سوٹ بھلے پہنو مگر یاد رکھنا بدلہ اپنی جگ سپاں دے پت کدھے مت نئی بن دے بھانویں چلیاں دودھ پلائے ہو(سانپوں کے بیٹے کبھی دوست نہیں بنتے چاہے ہاتھوں دودھ پلائیں)سانپ کی فطرت میں ڈسنا ہے اور وہ ڈس کے رہتا ہے۔انسان کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو جو اس کا سر کچلنے کے لئے کام آئے۔اللہ بھلا کرے ڈاکٹر قدیر کا وہ ڈنڈا دے گیا اور ہمارے ہاتھ میں جب تک یہ ڈنڈا ہے دشمن کی جرائت نہیں کہ وہ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔اللہ اس مرد جری کو عمر خضر عطا فرمائے۔ہم ان کے مرنے پر مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے کسی کی ہمت نہیں کہ وہ ان کی عیادت کو جائے اس لئے کہ وہ دنیاوی خدا کی نظر میں کھٹکتا ہے۔

حضور آپ کی بیٹیاں کوئی آسمانوں سے نہیں اتریں کہ ان کا احتساب نہیں ہو سکتا۔اگر بے قصور جمائمہ پر مقدمات بن سکتے ہیں ،سلومی بخاری کو دھکے پڑ سکتے ہیں تو آپ تو خوش نصیب ہیں کہ پھولوں کی پتیاں نچھاور ہوں گی عزت ،اب جج صاحب ایک دو پیشیوں پر ضمانت دے دیں گے ڈر کیسا۔اگر مال کے ہیر پھیر میں ان کا ہاتھ ہے تو انہیں بھی کٹہرے میں آنا چاہئے۔آپ علیمہ خان کے طعنے دیتے ہو اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو ضرور پکڑی جائیں مگر اس کے ابا نے تو وزارت عظمی نہیں کی اور نہ ہی بھائی وزیر اعلی تھا ۔اور نہیں تو لاہور ہائی کورٹ میں کیس لے جائے۔کس نے منع کیا ہے۔آج ہر ایک کی ضماتیں ہو رہی ہیں ننگ پنڈی فخر پنڈی بن رہا ہے۔انصاف کے اداروں سے توقع اور امید ختم ہے کسی کو کسی سے کوئی امید نہیں ۔قوم کسی خمینی ثانی کی تلاش میں تھی۔اسے عمران خان چاہئے تھا جس کے ہاتھ پائوں باندھ کر بوری میں بند کر کے کہا جا رہا ہے دوڑو۔

جناب حمزہ صاحب ویسے دکھ اور تکلیف کس بات کی ہائیکورٹ ہے ناں ۔کیس بنے گا ضمانت ہو جائے گی۔تایا جان کی ضمانت ابا جان رہا اور خود آ زرداری صاحب حفاظتی ضمانت پر باہر ہیں سرکار یہ عدالتیں اب اپنی اپنی سی نہیں لگتیں آپ کو۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا اگر صرف احتساب نواز شریف کا ہوا تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔میرے کزن اقبال تھے مرحوم کو ایک بار بخار ہو گیا کراچی کمپنی کے ڈاکٹر کے پاس گئے بتایا کہ بخار اترتا ہے پھر چڑھ جاتا ہے ڈاکٹر نے کہا اقبال جی آپ کو باری کا بخار ہو گیا ہے۔جو ایک دن چھوڑ کر ہو جاتا ہے۔بھائی نے جواب دیا جو تاریخی الفاظ کہے اور سچ پوچھیں سنہری الفاظ ہیں کہا ڈاکٹر صاحب باری کا بخار وہ ہے جو ایک دن مجھے چڑھے اور دوسرے دن آپ کو۔یہ کیسا بے غیرت بخار ہے جو ہر بار مجھے ہی چڑھتا ہے۔حضور جان لیجئے کہ اگر سندھ کے کسی اور بڑے کو دوسری بار بخار چڑھایا گیا تو اچھا نہ ہو گا یہی بات بلاول کہتا ہے اور یہی عام لوگ۔احتساب لاہوریوں کا پہلے کریں لاڑکانوی حضرات اپنی باری دے چکے ہیں۔اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔میں سندھی بھائیوں سے ملتا رہتا ہوں اسلام آباد بیٹھ کر حالات سے آگاہی لیتا رہتا ہوں۔معاملات اتنے سیدھے نہیں جتنے سمجھے جا رہے ہیں وہاں کوئی محبت کے زمزمے نہیں بہہ رہے۔کالا باغ کی طرح اٹھارویں ترمیم کو چھیڑنا مناسب نہیں۔ابھی حالات اچھائی کی جانب مزید بڑھانے کی ضرورت ہے جس دن پی ٹی آئی اندرون سندھ میںکراچی کی طرح کامیابی لے جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
انصاف مر رہا ہے عدل لہو لہو ہے لیکن مایوس ہونے کی بجائے جد و جہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

قوم نے یہ خواب دیکھا تھا کہ سب چور الٹے لٹکائے جائیں گے قوم دیکھ یہ رہی ہے کہ بنی چوک سے پھول ختم ہو رہے ہیں جو ننگ پنڈی تھے وہ فخر پنڈی بنائے جا رہے ہیں۔پچھلے برس انتحابات کے دنوں کی بات ہے گھر کے سامنے ایفی ڈرین والے کا بینر لگا تھا میرے گھر کے باہر قلم دوات کا بینر تھا یقین کیجئے سامنے والے کے نیچے بھنگ اگ آئی اور میرے گھر والے بینر کے نیچے پھول کچھ دنوں سے کانٹے زیادہ ہو گئے ہیں۔اب کے برس شائد بات مختلف ہو جائے۔جب پیا کوتوال ہیں تو پھر ڈر کس بات کا۔آپ کی بیٹیاں بہنیں جائیں پیش ہوں ضمانت کرائیں مزے کریں۔اگر پھول کم ہوئے تو بنی چوک سے کسی کوکہوں گا، بھجوا دئے جائیں گے۔علامہ اقبال کے دو شعر نذر قارین ہیں۔یہاں غیر سے مراد دھن ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من

Engr Iftikhar Chaudhry

Engr Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری