پچھلے دنوں لاہور میں (Anothwe prospective)نامی کتاب کی شاندار تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ اس کتاب کے مصنف ہیں کرکٹ کی دنیا کے معاملات سے وابستہ ایک بڑا نام، بین الاقوامی ماہر نشریات و اطلاعات، کرکٹ پروموٹر ، ویلز کرکٹ کپ کے بانی ، تعلقات عامہ کی عالمی شخصیت جناب طاہر میمن صاحب۔ جنہوں نے 1977ء سے 1998ء تک کی کرکٹ ان کہی تاریخ کو اس کتاب میں محفوظ کر دیا ہے۔
لیکن حیرت و افسوس یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے قیمتی تجربات قلمبند بھی کیئے تو انگریزی زبان میں ۔ یعنی بائیس کروڑ لوگوں کے ملک میں سے صرف بائیس ہزار لوگوں کے لیئے ۔ ان میں سے بھی شاید 22 لوگ ہی اسے خرید کر پڑھنے کی زحمت فرمائینگے۔
ہر لکھنے والے کو یہ بات بھی سوچنا چاہیئے کہ وہ کتاب کس ملک کے لیئے، کس زبان کے بولنے پڑھنے والوں کے لیئے لکھ رہا ہے ؟ کیا اسے اس ملک کی اکثریتی آبادی پڑھنے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے ؟ کیا اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اکثریت میں ہے یا اقلیت میں ۔ بہت سا پیسہ خرچ کر کے ، بڑی سی محفل سجا کر ، بڑے بڑے معروف نام اکٹھے کر لینے سے کیا یہ کتاب عام آدمی کے مفاد میں اضافہ دینے لائق ہو جائے گی ؟ یہاں تحفے میں دو چار سو یا ہزار کتب تقسیم کر لینے سے کیا اس میں تحریر کردہ تجربات عام آدمی (جو بمشکل سرکاری سکول میں پڑھنے والے انسان ہیں )کی زندگی بدل دیں گی ؟
میں نے آج تک کسی انگریز کو اپنے زندگی کے تجربات فرنچ میں لکھتے بیان کرتے نہیں دیکھا ، کوئی فرنچ جرمن زبان میں اپنے تجربات اپنی قوم میں بانٹنے نہیں آتا ۔ کوئی اٹالین اسپینش میں ، انگریزی میں اپنی قوم کو سبق پڑھانے نہیں آتا ۔ تو ہمیں اپنی قوم پر کسی غیر زبان میں رعب ڈالنے کا مرض کیوں ہے ؟ اگر ایسا ہے تو جان لیجیئے کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ۔
برائے مہربانی ان تمام بہت ہی ذیادہ پڑھ لکھ گئے لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں تک لکھ کر، سنا کر جو بھی چیز پیش کرنی ہو، تو اس کی اکثریت کی بولی اور سمجھی جانے والی زبان کو ہی ذریعہ اظہار بنایا جائے ۔ تاکہ پڑھنے اور سننے والے کو اس بات کی سمجھ آ سکے اور وہ اس پر غور بھی کر سکے ، ورنہ لکھنے والے کی سب ڈگریاں ، سبھی حیثیتیں محض شو پیس بنکر ہی رہ جا تی ہیں۔
ہماری زبان اردو بہت خوبصورت اور جامع ہے ۔ ہمیں ہر کتاب ہماری اردو زبان ہی میں چاہیئے۔
انگریزی قلمکار اپنی کتابیں امریکہ اور انگلیڈ میں جا کر انگریزی میں ضرور پیش کریں ۔ جناب طاہر میمن صاحب کو ان کی کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد ۔ لیکن جلد ہی اس کتاب کے اردو ایڈیشن کی امید کیساتھ۔